ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
دلعزیز ہی خوش رکھ سکتا ہے خوشی کا انجام وہ ہو گا جیسے ایک حکایت ہے ـ کہ ایک شخص ہر دلعزیز تھے کسی دریا کے کنارے پہنچ گئے دیکھا کہ ایک شخص اس کنارے بیٹھا رو رہا ہے ـ وہ دوسرے کنارہ پر جانا چاہتا ہے اور ایک اس کنارے رو رہا ہے ـ وہ اس کنارے آنا چاہتا ہے ـ ان کے دل میں آیا کہ دونوں کو پار کروں اپنے قریب والے کو لیکر چلا جب نصف دریا میں پہنچا تو دل میں خیال ہوا کہ وہ بھی رو رہا ہے ـ اب اتنا ہی اس کا کام کروں ـ یعنی اس کو یہیں چھوڑ کر اتنی ہی دور اس کو لانا چاہیئے تاکہ اس کی بھی آزادی نہ ہو ـ پس اس کو بیچ دریا میں چھوڑا اس کو لینے گیا یہ یہاں پر ڈوبنے لگا جب اس کو لے کر اس طرف چلا اس کو ڈوبتے دیکھ کر اس کو چھوڑ کر اس کی طرف چلا اس کے پاس نہ پہنچا تھاکہ یہ ڈوب کر مر گیا ـ اب اس طرف لوٹا تو وہاں تک نہ پہنچا تھا کہ وہ بھی ختم ہواـ سو ہر دلعزیزی کا یہ نتیجہ ہے مجھ سے ایسی ہر دلعزیزی کی کوئی امید نہ رکھے میں ہرگز اصول صحیحہ کو نہیں چھوڑ سکتا ـ لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری غلامی کیجائے مگر جب میں خود ہی دوسروں سے غلامی نہیں چاہتا پھر ہی ان کی کیوں غلامی کروں ـ البتہ اصول صحیحہ کے تم بھی غلام بنو اور میں بھی ـ ان ہی اصول میں سے میرا ایک یہ معمول بھی ہے کہ ایک خط میں صرف ایک مضمون ہو البتہ اگر اس ایک ہی کے چند اجزاء ہوں تو دوسری بات ہے ورنہ اگر سب مستقل مضمون ہوں تو میں واپس کر دیتا ہوں کہ ایک خط میں ایک ہی سوال آنا چاہیئے ـ جواب میں اختصار ضروری ہے ( ملفوظ 53 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جواب میں اگر اختصار نہ ہو تو یہ کام ڈاک کا روز کے روز کیسے ختم ہو سکتا ہے ـ میں زمانہ طالب علمی میں مدرسہ دیوبند میں فتاوی لکھا کرتا تھا ـ ایک سوال آیا بہت طویل تھا میں نے بھی اس پر بہت طویل جواب لکھا ـ حالانکہ مختصر جواب بھی کافی ہو سکتا تھا اور لکھ کر حضرت مولانا یعقوب ٖصاحب ؒ کے سامنے دستخط کے لئے پیش کیا ـ دیکھ کر اور دستخط فرما کر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کو فرصت بہت ہے ہم تو جب دیکھیں گے کہ جب سامنے کاغزات کا انبار لگا ہوگا کہ اس وقت بھی ایسے ہی طویل مضمون لکھتے ہو یا نہیں ـ اب حضرت کا فرمانا یاد آجاتا ہے ـ طلباء کے بارے میں حضرت کا ایک معمول ( ملفوظ 54 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میرا ایک یہ بھی معمول ہے کہ اگر کوئی طالب علم کوئی بات پوچھتا ہے تر لکھ دیتا ہوں کہ اپنے استاتزہ سے پوچھو مگر طالب علموں کا طبقہ بڑا ہوشیار ہوتا ہے ـ جواب میں لکھتے ہیں کہ پوچھا تھا مگر تسلی نہیں ہوئی ـ میں لکھتا ہوں کہ اپنا شبہ اور ان کا جواب نقل کرو اور تسلی نہ ہونے کی وجہ لکھو بس اس کے بعد ان کا سوال ختم ہوجاتا ہے