ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
اس لئے اس میں بجز ضروری مواقع کے تشدد نہیں رہتا ـ اکثر مواقع میں ڈھیلا ہو جاتا ( بیائے معروف ) ہے ڈھیلا نہیں ہوتا ( بیائے مجہول ) جس سے چوٹ لگ جائے ـ قاضی ضیاءالدین سنامی رحمتہ اللہ علیہ مصنف الاحتساب الاحتساب کا ایک واقعہ سنا ہے ـ وہ واقعہ حضرت سلطان نظام الدین صاحب کے ساتھ ہوا ہے وہ یہ کہ قاضی ضیاء الدین صاحب سلطان جی کو سماع سے منع فرماتے تھے کہ دربار سلطان جی نے غلبہ حال میں قاضی صاحب کی حاضری کے وقت قوال کو اشارہ کیا سماع شروع ہوگیا ـ سلطان جی کھڑے ہو گئے قاضی صاحب نے ہاتھ پکڑ کر بٹھلا دیا ـ سلطان جی سہ بارہ کھڑے ہوئے ـ قاضی صاحب پھر بٹھلانا چاہتے تھے مگر خود ہی ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑے ہوئے جب وہ حالت فرد ہوئی ـ قاضی صاحب نے فرمایا پھر آ کر احتساب کروں گا ـ بعضوں نے قاضی صاحب سے اس کا راز پوچھا فرمایا یہ جب اول بار کھڑے ہوئے ـ ان کی روح نے آسمان دنیا تک عروج کیا ـ میں نے وہاں سے واپس لا کر بٹھلا دیا ـ دوسری بار تحت العرش تک پہنچے میں نے وہاں سے بھی لوٹا لایا ـ تیسری بار فوق العرش پر پہچے میں نے جانا چاہا تو ملائکہ جلال نے روک دیا کہ یہاں صرف نظام الدین کے قدم جا سکتے ہیں ـ تم نہیں جا سکتے ـ وہاں انوار جلال دیکھ کر میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا ـ ان بدعتی کے سامنے تھوڑا ہی کھڑا ہوا دیکھئے شریعت ایسی اہتمام کی چیز ہے اور بعض نے اس میں اتنا غلو کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت کر کے سنت کے درجہ تک پہنچا دیا ہے ـ سو خوب سمجھ لو اس سے سنیت پر استدلال محض باطل ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور کے کان میں کوئی شعر پڑ گیا ہو یا احیانا بسبیل ندرت ( کبھی اتفاقی طور پر ) سن لیا ہو سو محض اس سے سنیت کا ثبوت نہیں ہو سکتا ـ میرا اس استدلال کی حقیقت میں ایک وعظ سے الغالب للطالب اس میں یہ مضمون نہایت مبسوط ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کا ہر فعل سنت نہیں بلکہ سنت وہی ہے جو حضور کی عادت غالبہ ہو ـ نیز غالی صوفیہ بھی اس بات کو نہیں کہہ سکتے کہ حضور اس مروج صورت کی اجازت فرماتے پس ہیئت مروجہ کو منقول پر قیاس کرنا ایسا ہے جیسے تہمد حضور باندھتے تھے ـ اس پر کوئی دھوتی کو قیاس کر لے اور یہ کہے کہ دونوں میں ذرا سا ہی تو فرق ہے ـ ایسے تغیر سے کیا ہوتا ہے ؟ بس یہی تو فرق ہے ـ دھوتی میں کہ ایک پلا پیچھے اڑس لیا جاتا ہے ـ اس کو تو فقہا ہی سمجھ سکتے ہیں کہ کون فرق مؤثر ہے اور کون نہیں ـ علماء میں سلاطین کی سی سیاست ہونی چاہئے ( ملفوظ 403 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ علماء کی شان تو سیاست اصلاحی میں سلاطین کی سی ہونا