ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
ہو وہ آئے کیوں میں نے کس کو دعوت نہیں دی کوئی اشتہار نہیں دیا اس پر بھی اگر آتے ہیں تو جو ہمارا مسلک اور طرز ہے اسکا اتباع کرو یہاں آنیوالوں کو اسکا استحضار کر کے آنا چاہیئے ـ یا مکن با پیلبا نان دوستی ، یا بنا کن خانہ برانداز پیل ، یا مکش بر چہرہ نیل عاشقی ، یا فرد شو جامئہ تقوی نہ نیل ( یا تو ہاتھی والے سے دوستی مت کرو یا گھر ایسا بناؤ جس میں ہاتھی آ سکے یا تو عاشقی کا رنگ اپنے اندر مت پیدا کرو یا پھر تقویٰ ( ظاہری ) کو خیرباد کہو 12 ـ ) یہاں تو جیسے معاصی پر روک ٹوک ہوتی ہے ویسے ہی بد تہذیبی پر بھی ہوتی ہے اس حالت میں ہر کہ خواہد گو بیاؤ ہر کہ خواہد گوبرو ( جسکا دل چاہے آوے اور جسکا دل چاہے جاوے ) 13 صفرالمظفر 1351 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم یکشنبہ حضرت کا طریق اصلاح اور تجدید تصوف ( ملفوظ 461 ) ایک صاحب کی غلطی پر مواخزہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ مجھکو تو تمہاری ان نا لائق حرکتوں سے اذیت ہوتی ہے جسکو میں تو یہ سمجھ کر برداشت کر سکتا ہوں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام اصلاح کے لئے اذیتیں سہتے تھے ہم تو کیا چیز ہیں ہماری ہستی اور وجود ہی کیا ہے سو میں تو اپنے دل کو اس طرح سمجھا سکتا ہوں لیکن اس میں آپ لوگوں کا تو ضرر ہے اسکے متعلق آپ نے کیا تسلی سوچی ہے اگر آپ ایذا نہ دیتے اور یہاں بیٹھتے تو مفید مفید باتیں سنتے ان سے نفع ہوتا جو اصل مقصود ہے مجانست و مصاحبت سے رہا برکت کا خیال اور مجالست سے اسکا قصد سو اگر خواجہ معین الدین قطب الدین بختیار کاکی بابا فرید گنج شکر یہ سب بھی ہو جائیں تو اتنی برکت نہ ہوگی ـ جتنی قرآن شریف سے برکت ہوگی اور میں بیچارہ تو کس شمار میں ہوں اس لئے کہ آدمی تو گوشت اور پوست اور قاذورات کا مجموعہ ہے قرآن شریف تو نور ہی نور ہے بلکہ نور علی نور ہے سو ایک قرآن مجید آتھ آنہ بارہ آنہ میں خرید لو برکت حاصل ہو جاوئے گی سو برکت اور چیز ہے اصلاح اور چیز ہے لوگوں کو اسکا اہتمام نہیں اور مجھ کو اسکا اہتمام ہے یہ حاصل ہے میرے اور عام لوگوں کے اختلاف کا مگر اس تجربہ کے بعد اب میں بھی اس طرز کو غالبا چھوڑ دوں کیونکہ جب کوئی نفع نہیں تو کیوں خود اذیتیں اٹھاؤں اور کیوں دوسروں کو تکلیف پہنچاؤں اور لوگوں کے عدم اہتمام کیوجہ یہ ہے کہ اسکی اہمیت انکی نظر میں نہیں چناچہ لوگ عالم بننا چاہتے ہیں بزرگ بننا چاہتے ہیں مگر انسان بننا کوئی نہیں چاہتا مٹنا اور فنا ہونا کوئی نہیں چاہتا ارے بندہ خدا کیوں اس طریق کو بھی بدنام کرتے ہو مدتوں کے