ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
محمد عقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ بدعت اور کفر کی لڑائی نہیں ہے ـ بلکہ اسلام اور کفر کی لڑائی ہے ـ کفار بدعت سمجھ کر تھوڑا ہی مقابلہ کر رہے ہیں وہ تو اسلامی شعار سمجھ کر مقابلہ کر رہے ہیں ـ جاؤ انکا مقابلہ کرو غرضیکہ تمام مسلمان متحد ہو کر لڑے فتح ہوئی تو ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے فہم اور عقل کی ضرورت ہے ـ صرف ایک ہی پہلو پر نظر کرنا چائے ـ شعار اسلامی سمجھنے پر ایک واقعہ یاد آیا ـ کیرانہ میں زمانہ تحریک خلافت میں میری ایک مولوی صاحب سے گفتگو ہوئی ـ میں نے کہا کہ اور بات تو بعد میں ہوگی پہلے ترکوں کی سلطنت کو اسلامی سلطنت تو ثابت کر دیجئے تب دوسروں کو نصرت کی ترغیب دیجئے گا اور میں نے ان سے پوچھا کہ یہ بتلایئے کہ مجموعہ کفر اور اسلام کا کیا ہوگا کہا کہ کفر میں نے کہا کہ اب یہ بتلاؤ کہ ترکوں کی حکومت جو اس وقت ہے وہ شخصی ہے یا جمہوری کہا کہ جمہوری ـ میں نے کہا کہ اس میں جو پارلیمنٹ ہے وہ کفار اور مسلمانوں سے مرکب ہے ـ یا خلاص مسلمانوں کی جماعت ہے کہا کہ مسلم اور کافر میں مشترک ہے ـ میں نے کہا کہ مجموعی کیا ہوا ـ پھر نصرت کیسی غیر اسلامی سلطنت کی نصرت کراتے ہو ـ حیرت زدہ رہ گئے ـ کہنے لگے کہ یہ تو کچھاور ہی نکلا ـ سارا بن بنایا قصر ہی منہدم ہو گیا ـ میں نے کہا کہ اگر آپ جواب نہ دے سیکں تو اپنے علماء اور لیڈروں سے پوچھ کر جواب دو ـ خاموش تھے بیچارے میں نے کہا کہ جاؤ جن کو مخالف سمجھتے ہو اور خشک ملا کہتے ہو ـ اس کا جواب بھی انہی کے پاس ہے ـ ہم کہتے ہیں کہ پھر بھی انکی نصرت واجب ہے اس لئے کہ کفار تو اس کی اسلامی سلطنت ہی سمجھ کر مقابلہ کر رہے ہیں اسلیئے اس وقت ترکوں کی نصرت اسلام اور مسلمانوں کی نصرت ہے ـ اس پر بے حد خوش ہوئے اور دعائیں دیں ـ اور مجھ کو خوشی میں کچھ نقد نزرانہ بھی دیا ـ حضرت شیخ الہند کا حضرت تھانوی کے بارے میں ایک قول ( ملفوظ 408 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگوں نے اسی زمانہ تحریک میں میری شکایت حضرت مولانا دیوبندی رحمتہ اللہ علیہ سے کی کہ وہ اس تحریک میں شریک نہیں ـ حضرت مولانا نے فرمایا کہ ہم کو اس پر بھی فخر ہے کہ ایسی ہمت کا بھی ہمیں میں سے ہے کہ جس نے تمام ہندوستان بلکہ دنیا کی پرواہ نہ کی جو اس کی رائے میں حق ہے ـ اس پر استقلال سے قائم ہے ـ کسی دباؤ یا اثر کو ذرہ برابر حق کے مقابلہ میں قبول نہ کیا ـ پھر تحریک فرد ہونے کے بعد کثرت سے لوگوں کے خطوط طلب معافی میں آئے ـ میں نے لکھ دیا کہ معافی کے متعلق تو عذر نہیں بقول غالب سفینہ جبکہ کنارہ پہ آ لگا غالب خدا سے کیا ستم و جور نا خدا کہئے