ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
لئے مجھ ہی کم بخت کی عادت ہے کہ کھود کرید کرتا ہوں جس کا داعی محض مصلحت ہے مخاطب کی کیا کہوں کس طرح دل چیر کر دکھلا دوں دونوں طرح رنج ہوتا ہے نہ کہوں تب بھی کیونکہ مخاطب کی مصلحت فوت ہوتی ہے اور کہوں تب بھی مخاطب کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور مجھ کو بھی لیکن اگر کہا جاوے گا تو کہنے کی طرح ہی کہا جاوے گا یہ تو ممکن نہیں کہ ہوتھ جوڑ کر پیر پکڑ عرض کروں سو یوں تو نہیں کہا جاتا پھر اس سے بھی دل دکھتا ہے کہ ایک شخص اتنی دور سے آیا اور ویسے ہی چلا گیا اس کی بھی غلطی بھی نہ بتلائی گئی غرض ہر طرح پر رنج ہی ہوتا ہے اور یہ وجہ ہے میرے بدنام ہونے کی کہ اگر متنبہ کرتا ہوں بے لطفی کی یہ نوبت پہچتی ہے اور نہیں کرتا تو جس سے آئے تھے وہ حاصل ہوتی ـ ایک صاحب کا خط اور حضرت کا جواب ( ملفوظ 160 ) فرمایا کہ ایک خط آیا ہے لھکا ہے کہ پیرا کا انتقال ہو گیا یہ بتلا دو کہ میرا حصہ کہاں ہے تاکہ وہاں جا کر حاصل کروں میں نے لکھ دیا ہے کہ یہ صاحب کشف کا کام ہے اور میں صاحب کشف نہیں اس پر فرمایا کہ ایسے پاگل طالب رہ گئے - مسلمانوں کے افلاس کا علاج : ( ملفوظ 161 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس وقت جو مسلمان کمزور نظر آتے ہیں اور دب گئے ہیں اس کا ایک قومی سبب افلاس بھی ہے جس نے سب کے سامنے جھکا دیا اور پہلے بزرگوں پر قیاس نہیں کرنا چاہئے ان میں قوت ایمانیہ تھی وہ افلاس سے پریشان نہ ہوتے تھے اور اس وقت دین کی قوت تو مسلمانوں میں ہے نہیں اگر مال کی بھی نہ ہو تو سوائے ذلت کے اور کیا ہوگا اب تو یہ ہورہا ہے کہ حکام مسلمان کو الگ دبا رہے ہیں برادران وطن الگ اور یہ افلاس مسلمانوں کا زیادہ تر فضول خرچی کے سبب سے ہے ایک دانشمند شخص خوب کہتے تھے کہ آمدنی تو اختیار میں نہیں مگر لوگ اس کی کوشش کرتے ہیں اور جو چیز اختیار میں ہے یعنی خرچ اس کے گھٹانے کی فکر نہیں واقعی خوب کام کی بات کہی ـ ایک پیر صاحب کی غزا ( ملفوظ 162 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل تو مشائخ کے یہاں ایسی باتیں مایہ ناز ہو رہی ہیں جیسے ایک پیر کے مرید نے کہا کہ حضرت کچھ نہیں کھاتے ایک شخص نے دریافت کیا کہ آخر کچھ کھاتے بھی ہیں کہ صرف آدھ پاؤ بالائی اور ایک چھٹانک مغز بادام اور ایک پیالی چائے اور تھوڑا سا دودھ اس شخص نے کہا کہ حضرت کچھ نہیں کھاتے صرف اتنی اور کسر ہے کہ تجھے اور مجھے نہیں کھایا کیا لغویات ہیں ـ