ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
وقت والد صاحب مٹھائی لا کر مرید ہوگئے بات یہ ہے کہ ان حضرات میں جانب خلوص تھا یہ اس کے آثار تھے اور لوگوں میں دونوں طرف عدم خلوص اس لئے کاوش کی حاجت ہوگئی ـ شریعت کا کوئی حکم خلاف فطرت نہیں ( ملفوظ 237 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اگر فطرت سلیم ہو تو ایک حکم بھی شریعت کا خلاف فطرت نہیں ـ اکرام اور تعظیم میں فرق ہے ( ملفوظ 238 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ایک تو ہوتا ہے اکرام اور ایک ہوتی ہے تعظیم صورت دونوں کی ایک ہے مگر نیت کی وجہ سے دونوں میں حقیقت کا فرق ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے مکان پر تشریف لیجاتے تو حضرت فاطمہ کھڑی ہو جاتیں اور حضرت فاطمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پر آتیں تو حضور کھڑے ہو جاتے ان دونوں میں وہی اکرام اورتعظیم کا فرق ہے گو صورت ایک ہے غرض اکرام جسکا حاصل تو خاطرداری اور رعایت ہے اور چیز ہے اور تعظیم اور چیز ہے صورت ایک ہونیکی وجہ سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں وہ خاطرداری کو بھی تعظیم ہی سمجھتے ہیں اور ترک تعظیم کو ترک اکرام ـ عمامہ کو ضروری سمجھنے پر ایک صاحب سے بحث ( ملفوظ 239) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں ایک مرتبہ طواف کر رہا تھا جب میں فارغ ہوا تو ایک دوست کے پاس جا بیٹھا ایک صاحب ضعیف العمر آئے اور کہا کہ کئی مرتبہ تم سے ملنے کو جی چاہا مگر اتفاق سے ملاقات نہ ہو سکی اور ایک بات بھی کہنی ہے وہ یہ کہ تم عمامہ کیوں نہیں باندھتے میں نے کہا کہ کیا فرض ہے واجب ہے کہا کہ سنت ہے میں نے کہا کہ سنت موکدہ ہے یا مستحب کہا کہ اس سے کیا بحث میں نے کہا کہ بحث اس لئے ہے کہ ہر ایک کے احکام جدا ہیں مگر اس پر بھی وہ اپنی ہانکتے رہے کہ تم سنت کے خلاف کرتے ہو پھر تم بھی نفس کی شوخی سے اس تلاش میں لگا کہ ان میں بھی کوئی بات سنت کے خلاف ہے تو وہ پاجامہ پہن رہے تھے میں نے کہا کہ یہ پاجامہ جو آپ پہن رہے ہیں سنت کے خلاف ہے لنگی باندھنا چاہیئے کہنے لگے کہ بوڑھا آدمی ہوں اس لئے لونگی کھل جانے کا اندیشہ ہے میں نے کہا کہ میں جوان آدمی ہوں عمام کی گرمی سے دماغ میں گرمی ہوجانیکا اندیشہ ہے بس ان سے کچھ جواب بن نہ پڑا لگے سنے کہ خدا کرے تمہارے دماغ میں خوب گرمی ہو جاوے مجھ کو بھی غصہ آ گیا میں نے کہا تم بازار میں ننگے ہو جاؤ ان دوست نے ان دونوں کو روکا یہ حقیقت ہے آجکل کا مناظرہ کی عمامہ کو آجکل بعضے فرض واجب سمجھتے ہیں خصوص سرحدی لوگ