ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
سلیم ہونا چاہیئے ایک ریاست میں ایک ہندو راجہ نے اذان کہنے پر فیصلہ کیا تھا ہندو اذان دینے سے تمہارا کیا حرج ہے عرض کیا کہ اذان سے ہمارے دیوتا بھا گتے ہیں راجہ نے وزیر کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ ایک گھوڑا تھا تمہارے یہاں وہ توپ کی آواز سے چونکتا تھا ہم نے اسکو میدان میں بندھوا کر اور اسکے پاس توپ لگا کر گولے چلوائے تو اس کی بدک نکل گئی تھی اسی طرح اگر دیوتا اذان سے بھا گتے ہیں تو اسکی بھی یہی ایک صورت ہے اذان کہلوائی جائے تاکہ انکی بدک نکلے اس لئے کہ کسی موقع پر اگر دیوتا ان کی امداد کی ضرورت ہوئی اور مسلمانوں نے پڑھ دی اذان تو سب بھاگ جائیں گے اس وقت ہم کو شکست ہوگی یہ فیصلہ دیا راجہ نے واقع میں اسلام کی طرف فطری کشش ہے اگر کوئی منع نہ ہو تو کافر بھی اسکو ہی قبول کرے پہلے ہندو اسقدر متشدد نہ تھے یہ ان آریوں نے عداوت کا بیج بویا ہے یہ آریہ جماعت مذہبی جماعت نہیں ہے بلکہ سیاسی جماعت ہے یہ ہندوں کے نیچری ہیں ـ '' نہ ستانے والوں کا خادم ہوں '' ( ملفوظ 215 ) ایک صاحب کی غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں تو خادم ہوں اگر کوئی ڈھنگ سے خدمت لینا چاہئے مجھے خدمت سے عزر نہیں لائق مخدوم کا خادم بن سکتا ہوں نالائق مخدوم کا خادم نہیں بن سکتا مخدوم کا خادم ہوں مجزوم کا نہیں اگر کوئی مجھ سے سلیقہ سے خدمت لے انشاءاللہ تعالٰی مجھ کو وفادار کا کارگزار خادم پائیگا اور اگر کوئی بے طریقہ بد سلیقہ بے اصول ہو تو اسکی ایسی تیسی کہ وہ خدمت لے سکے یہ میرے کہنے کی تو بات نہیں مگر دیکھنے والے بتا سکتے ہیں کہ کیا کسی وقت مجھ کو فرصت ہوتی ہے ہر وقت کام میں لگا رہتا ہوں تو جو شخص اسقدر خدمت میں مشغول ہو گیا وہ خدمت سے گھبرائے گا پھر اس خدمت کا نفع عاجل تو دوسرے ہی کو پہنچتا ہے باقی مجھ کو اگر کچھ اجر ملتا ہے تو وہ نفع آجل ہے مگر محتمل ہے نہ معلوم مقبول بھی ہے یا نہیں بہر حال اسکا نفع یقینی اور میرا محتمل غرض میرا خادم ہونا ظاہر ہے مگر جب کوئی ستائے میں اسکا خادم نہیں بن سکتا اصول صحیحہ کا تابع ہو کر تو خدمت آسان بے اصول خدمت مشکل ہے کس کس کی ایسی خدمت کرے اور کس کس کو کوش رکھے یہ ہیں وہ باتیں جنکی بناء پر مجھ کوبدنام کیا جاتا ہے ـ اسراف اوربخل کا علاج ( ملفوظ 216 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آجکل اسکی شکایت عام ہے کہ مسلمانوں میں فضول