ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
اور مشقت سے بچ جائیں گے ـ حضور نے فرمایا یہی حالت اچھی ہے جو آجکل ہے جب حضور نے صحابہ کے لئے زیادہ پسند نہیں کیا حالانکہ ان حضرات نے واقعی زیادہ سامان ہونے پر عبادت میں پہلے سے زیادہ ترقی کی ہے اور دنیا میں نہیں گھسے تو اوروں کے لئے کب پسند فرمائیں گے اس لئے مسلمانوں کو دوسری قوموں کا مال دیکھ کر رال نہ ٹپکانا چاہیئے او لٰئک عجلت لھم طیباتھم فی حیوٰتھم الدنیا ( یہ کافر لوگ تو وہ ہیں جنکو انکی تعمتیں دنیاوی زندگی ہی میں دیدی گئی ہیں ) اور آخرت میں تو کافروں کے لئے عذاب ہی ہے اور مسلمانوں کے واسطے تو راحت جنت میں ہے دنیا میں تو مسلمانوں کو اتنی چاہیے کہ پیٹ بھر کر روٹی مل جاوے ستر ڈھانکنے کے لئے کپڑا اور رہنے کو مختصر سا مکان اور اتنا الحمد اللہ بہت مسلمانوں کو حاصل ہے صحابہ کو حضور کے زمانہ میں اتنا بھی حاصل نہ تھا تو ہم تو گویا بادشاہ ہیں ـ ارشاد نبوی ہے : من اصبح معافی فی جسدہ امنا فی سر بہ عندہ قوت یومہ فکانما حیرت لہ الدنیا بحذ افیرھا ( یعنی جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ بدن میں صحت ہو ، دل میں بے فکری ہو ، ایک دن کھانا اس کے پاس ہو تو گویا اسکو تمام دنیا مل گئی ) ـ غرض حق تعالٰی کی حکمت ہے کہ بعض لوگوں کو غربت رکھتے ہیں ان کو کیا خبر ہے کہ امیر ہونیکے بعد وہ کیسے ہو جاتے ـ ایسے لوگوں کو اللہ تعالی یہ نیک نیت عطا فرمادیتے ہیں یہی درجے بلند کرنے کے لئے کافی ہے ـ خود ارشاد فرمایا ہے : قول معروف و مغفرۃ خیر من صدقۃ یعبعھا اذی واللہ غنی حلیم ( اچھی اچھی باتیں اور معافی دیدینا ایسے صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد احسان جتا نیکی تکلیف ہو اور اللہ تعالٰی بے بے نیاز ہیں بردبار ہیں ) جس کے پاس مال نہیں وہ نیک باتوں سے ثواب حاصل کر سکتا ( مظاہر الاحوال 18 ) ایک شبہ اور جواب شاید کوئی یہ کہے کہ قرآن شریف میں ہے : و انہ لحب الخیر لشدید بیشک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے ) کتب علیکم اذا حضر احد کم الموت ان ترک خیران الوصیۃ الآیتہ ( تم پر ضروری کی گئی ہے وصیت جب کسی کو موت آنے لگے اگر وہ مال چھوڑے ) یہاں مال کو خیر فرمایا