ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
کیا کرو اور ہم درست کیا کریں ـ اپنے اپنے کام میں لگے رہو ـ اپنے اپنے کام کرنے پر ایک مثال یاد آئی ایک سنی نے ایک شیعی کو تبرا کہنے پر قتل کر دیا تھا ـ مقدمہ چلا شیعی کے بیرسٹر نے حکم سے کہا کہ ہمارے یہاں تبرا کہنا عبادت ہے ـ اور ہر شخص کو مذہبی آزادی ہونا چاہئے پھر قتل محض بیجا ہوا ـ سنی کے وکیل نے کہا کہ جو تبرا کہے ہمارے یہاں اس کو قتل کر دینا عبادت ہے ـ پس یہ بھی آزاد رہے وہ بھی آزاد اور ہے خارج کر دیجئے اس آزاد رہنے پر ایک مسئلہ یاد آگیا ـ فقہاء نے عورت کو خاوند کے مسخر کرنے کے لئے تعویذ کرانے کو حرام کہا ہے ـ اسکی وجہ بحمداللہ میری سمجھ میں آ گئی ـ جس ک احاصل یہ ہے کہ ایسا تعویذ مراد ہے جس کا یہ اثر ہو کہ وہ اپنے نفع نقصان کو نہ سمجھ سکے ـ اضطراری حالت پیدا ہو جائے اس کی آزادی مسلوب ہو جائے اور حقوق واجبہ میں تو سلب آزادی اور جبر کا مضائقہ نہیں مگر تبرع میں اکی ممانعت ہے ـ احکام دین جدید تحقیقات کے محتاج نہیں ( ملفوظ 364 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا آج کل بعض کا یہ خیال ہے کہ ہم اپنے احکام دینیہ میں صنائع یا تحقیق کے محتاج ہیں ـ شیطانی دھوکہ ہے ـ بحمد اللہ ہم کو قیامت تک کے لۓ کسی کا محتاج نہیں چھوڑا بلکہ بعض اوقات ان پر مدار رکھنے میں سخت گڑبڑ ہو جاتی ہے ـ دیکھۓ ان احکام میں طلوع وغروب کے بھی مسائل ہیں ـ یہ تحقیق جدید ہے کہ آفتاب طلوع حسی سے ذرا پہلے نظر آنے لگتا ہے اور غروب حسی کے بعد تک نظر آتا رہتا ہے ـ سو اگر اس تحقیق پر عمل کیا جاوے تو پہلی صورت میں عین طلوع کے وقت فجر کی ادا نماز جائز ہو کیوں کہ واقع میں ابھی طلوع نہیں ہوا ـ دوسری صورت میں عین غروب کے وقت مغرب کی ادا نماز جائز ہو کیوں کہ واقع میں غروب ہو چکا ہے تو شریعت نے حسی طلوع و غروب پر احکام کا مدار رکھا ہے ـ نہ کہ حقیقی طلوع و غروب پر ـ اسی طرح اگر صنائع جدید کا احکام میں اعتبار ہو تو احکام شرعیہ میں خلل پڑ جاۓ ـ مثلا آلہ بکرا لصوت سے تکبیرات انتقالات سن کر رکوع سجود کیا جاوے تو نماز ہی فاسد ہو جاۓ ـ ظہور دجال کے وقت طویل دن کی تحقیق ( ملفوظ 365 ) ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت دجال کے ظہور کی وقت جو ایک سال کا ایک دن ہو گا کیا حقیقت میں وہ ایک دن ہو گا ـ فرمایا کہ وہ ایک دن نہ ہو گا ـ تین سو ساٹھ ہی دن ہوں گے ـ مگر وہ ابصار میں تصرف کرے گا ـ اس تصرف کی وجہ سے ایک دن معلوم ہو گا ـ اور جہاں اس کا تصرف نہ پہنچے گا وہاں یہ اثرنہ ہوگا ـ یہ تحقیق مشہور نہیں ـ مگر ایک حدیث سے مفہوم ہوتی ہے