ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
اگر دنیا کے متعلق کوئی شبہ ہو تو پہلا طبقہ جواب دے ہوگا اور اگر دین کے متعلق کوئی شبہ ہو تو دوسرا طبقہ جواب دے ہوگا ـ رہا میری شرکت کے متعلق سو یہ عرض ہے کہ غیب کی خبر نہ مجھکو نہ آپ کو اس لئے پہلے سے کیسے جازم فیصلہ کرلوں بس معلقا اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر شریعت کے موافق طریق کار ہو میں شریک ہوں مجھ کو انکار نہیں اصرار نہیں جو بات تھی میں نے صاف صاف ظاہر کر دی تاکہ کسی قسم کی آپ کو الجھن نہ ہو دھوکہ نہ ہو نہایت احسن طریق سے کام شروع کیا جاوے اور اگر اس میں کوئی مخالفت کرے اس کے ساتھ نرمی سے کام لیا جاوے جبر اور تشدد کو پاس نہ آنے دیا جائے انشاءاللہ تعالی رفتہ رفتہ سب شریک ہوجائیں گے سب سے اول ضرورت خلوص کی ہے پھر فلوس والے خود آ شریک ہوں گے آپ دیکھیں کہ شیعوں کا مذہب نہایت لچر ہے مگر ظاہرا ان کے نرم ہونے کی وجہ سے بہت لوگ اس طرف مائل ہیں ـ نرمی وہ چیز ہے کہ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی نے وعظ میں دیکھا کہ ایک شخص ٹخنے سے نیچے پا جامہ پہنے ہوئے ہے آپ نے ختم وعظ پر فرمایا کہ میاں ذرا تم ٹھرے رہنا تم سے کچھ کام ہے سب لوگ چلے گئے وہ شخص ٹھرا رہا تنہائی میں اس سے کہا کہ ذرا اس پر ایسی ایسی وعید ہے اس لئے دیکھ کر بتلا دو تاکہ زیادہ احتیاط کروں اور یہ کہہ کر کھڑے ہو گئے کہ بھائی اچھی طرح دیکھ لو اس شخص نے نہایت محجوبا لہجہ میں عرض کیا کہ حضرت خدا نہ کرے آپ کا تو کیوں ہوتا البتہ میرا ہی پاجامہ ٹخنے سے نیچے ہے میں توبہ کرتا ہوں مولانا محمد قاسم صاحب کا ایک واقعہ ہے کہ ایک خان صاحب مولانا کے بڑے دوست تھے مگر لباس انکا خلاف شریعت تھا اور جمعہ کے روز مولانا ہی کہ پاس آکر غسل کرتے کپڑے بدلتے اور جمعہ پڑھتے اور انداز سے یہ معلوم تھا کہ پکے آدمی ہیں کہنے سے نہ مانیں گے مولانا نے ایک جمعہ کو ان سے فرمایا کہ میاں آج دو جوڑے لیتے آنا ہم بھی آج تمھاری وضع کا لباس پہنیں گے وہ صاحب بے حد متاثر ہوئے اور عرض کیا کہ خدانہ کرے آپ مجھ جیسے خبیث کی وضع پر رہیں آپ ہی مجھ کو ایک جوڑا دیجئے میں اس کو پہنوں گا اور ہمیشہ کے لئے اس لباس سے تو توبہ کر لی حق تعالی نے نرمی میں حصہ رکھا ہے جزب کا پس آپ ان اصول پر کام شروع کریں اگر شریعت کے موافق تحریک نافز ہوگئی میں دل و جان سے شریک ہوں پھر فرامایا کہ تجارت کے متعلق ایک اور بات کام کی یاد آئی وہ یہ کہ امراء کو یہ رائے دی جائے کہ گراں قیمت کی چیزیں خرید کر غربا کو سستی دیں تاکہ تجارت میں مسلمان دوسری قوموں کا مقابلہ کر سکیں یہ دوسری قومیں مسلمانوں کو اپنی چالوں اور تدابیر سے تجارت میں چلنے نہیں دیتے ـ اور اس کی چند روز ضرورت ہوگی پھر کام چل نکلنے پر کچھ ضرورت نہ ہوگی وجہ