ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
اس طریق کی روح کیا ہے جو حاصل ہے سلوک کا کہا کہ مجاہدہ میں نے کہا کہ مجاہدہ کی کیا حقیقت ہے کہا کہ نفس کی مخالفت میں نے کہا کہ اب یہ بتلاؤ کہ تمھارا نفس سماع کو چاہتا ہے یا نہیں کہا کہ چاہتا ہے میں نے کہا کہ ہمارا نفس بھی چاہتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ تم نفس سماع کو چاہا ہوا کرتے ہو اور ہم نہیں کرتے تو اس حالت میں صاحب مجاہدہ تم ہوئے یا ہم درویش تم ہوئے یا ہم صوفی تم ہوئے یا ہم چپ رہ گئے اورکچھ سکوت کے بعد کہا کہ آج غلطی پر تنبیہ ہوا اور سمجھ میں آگئی پھر تائب ہو گئے ـ ایک ضدی کا دوسری ضد کے لئے سبب بننا اور اس میں ایک مغالطہ : ( ملفوظ 72 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگ مجھ پر اکثر عنایت فرماتے رہے ہیں ( یعنی اعتراض ) کہتے ہیں کہ یہ جو بعض دفعہ ہدایا وغیرہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں یہ بھی ایک تدبر ہے کہ بہت سا آئے یا نہ لینے کی حکمت بیان کی ٖخیر یہ تو خواہ حکمت ہو یا نہ ہو مگر اس سے ایک مسئلہ نکل آیا کہ ایک ضد کبھی دوسری ضد کا سبب بن جاتی ہے جیسے صورۃ نہ لینا اور حقیقتا زیادہ لینا اسی طرح تکبر کبھی بصورت تواضع ظاہر ہوتا ہے اور ریاء کبھی بصورت خلوص ظاہر ہوتی ہے اب اس کو سنکر بعض لوگ دوسرے وہم میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ان کو اپنے تمام افعال میں ان کی ضد کا شبہ اور وسوسہ ہو جاتا ہے یعنی اخلاص میں وسوسہ ہوتا ہے کہ شاید اس میں مخفی ریاء ہو سو اس کے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ ان اوہام کی طرف التفات نہ کرو یہ وساوس ہیں اگر آویں آنے دو انکی فکر ہی میں نہ پڑوس ان کا قصد نہ کرو اور ان کے اقتضاء پر عمل نہ کرو ان کی فکر میں پڑنا یہ بھی شیطان اور نفس ک شرارت ہے کہ اس میں مشغول کر کے اللہ کی مشغولی سے باز رکھنا چاہتے ہیں بس کام میں لگو انشاءاللہ تعالی کشتی پار لگ جائے گا ـ 16 ذی الحجہ 1350 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم شنبہ دعا میں جی نہ لگنا ( ملفوظ 73 ) ایک صاحب نے عرض کی کہ حضرت دعا میں جی نہیں لگتا فرمایا کہ جی نہ لگنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا اثر فورا نظر نہیں آتا مثلا کوئی دعا میں روپیہ مانگنے اور فورا جھجھن ہونے لگے یا سیب مانگنے اور فورا آپڑے پھر دیکھیں کیسے جی نہ لگے بس جی نہ لگنا مترادف اس خیال کا ہے کہ اس کو کچھ ملے گا نہیں سو یہ خیال خود محرومی کی دلیل ہے مانگنے کے وقت تو یہ استحضار ہونا چاہیئے کہ ضرور دیں گے باقی دینے کی حقیقت یہ ہے کہ انکی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ ہم سے جو کوئی خیر طلب کرتا ہے ہماری رحمت خاص اس طرف متوجہ ہو جاتی ہے تو دعا کا اثر رحمت خاصہ ہے کہ خاص قیود مطلوبہ مثلا کسی سائل نے کسی سے روپیہ مانگا اور اس نے اشرفی دیدی جنکی وہ قیمت نہیں جانتا تو