ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
کے کھانے کا انتظام فرماتے تھے مدرسے سے نہیں کرتے تھے اور مجھ کو اس کی اطلاع بھی فرمادی تھی کیونکہ سمجھتے تھے یہ شکی آدمی ہے ـ بڑی ہی رعایت فرماتے تھے ـ ان صاحب کو دستر خوان پر دیکھ کر بہت ناگواری ہوئی مگر مولانا کے سامنے کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی ـ آخر ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہنا ہے اور الگ لیجا کر ڈانٹا کہ یہ کیا نامعقول حرکت ہے ـ تم کو بدون دعوت کے کھانا کب جائز ہے ـ خاص کر تصریحا کہدینے کے بعد جب ان کا پاپ کٹا اب فکر ہوئی کہ اگر مولانا پوچھ بیٹھے کیا کہوں گا ـ مگر مولانا کچھ بولے نہیں سمجھ گئے کہ گئے تھے دو ـ اور واپس آیا ایک تو اسی واسطے گیا ہوگا ـ ایسے واقعات اکثر مجھ کو سفر میں پیش آتے تھے اب تو مدت سے سفر ہی بند ہوگیا ـ سو سب قواعد ایسی ضرورتوں سے تجویز کئے گئے ـ ضرورت سب کچھ کراتی ہے جو ضرورتیں پیش آتی رہیں ـ ویسے قواعد و ضوابط مقرر ہوتے گئے ـ اب دو تین روز سے بعض مہمانوں کے لئے استثناء ہو رہا ہے ـ اور یہ استثناء تو قواعد کے خلاف مگر ان لوگوں کی محبت کی وجہ سے ان کو مستثنٰی قرار دے رکھا ہے ـ ( مراد ان مہمانوں سے طلبہ مدرسہ دیوبند و مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور کے ہیں 12 جامع ) ان لوگوں سے تو خاص تعلق اور بے تکلفی ہے ـ بوجہ طالب علم ہونے کی اور اس قسم کے بہت سے استثناء ہیں ـ تجدید دین کے کام پر اللہ کا شکر ( ملفوظ 58 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ طریق بالکل مردہ ہو چکا تھا ـ لوگ بیحد غلطیوں میں مبتلا تھے ـ بحمدللہ اب سو برس تک تو تجدید کی ضرورت نہیں رہی اگر پھر خلط ہو جائے گا تو پھر کوئی اللہ کا بندہ پیدا ہو جائے گا ہر صدی پر ضرورت ہوتی ہے ـ تجدید کی اس لئے کہ مدت کے بعد نری کتابیں ہی کتابیں رہ جاتی ہیں ـ اب تو خدا کا فضل ہے کہ وضوح ہو گیا اور کتابیں فی نفسہ تو کافی ہیں مگر لوگ اس میں تحریفیں کہ لیتے ہیں اور کتابیں تو در کنار قرآن پاک کو ھدی اور بینات فرمایا گیا ہے مگر اس میں بھی دیکھ لیجئے کہ لوگ معانی اور مطالب میں کس قدر گڑبڑ مچا دیتے ہیں ـ استفسار پر اپنی رائے کا اظہار کر دینا ہی ادب ہے ( ملفوظ 59 ) ایک نو وارد صاحب نے درخواست بیعت کی ـ حضرت والا نے بیعت کے متعلق اصول اور قواعد بیان کر کے فرمایا کہ اب ان اصول اور قواعد کو سن لینے کے بعد جو رائے قائم کی ہو وہ بتلا دو ـ اس پر ان صاحب نے عرض کیا کہ جو حضرت کی رائے ہو فرمایا کہ قواعد بتلانے کے بعد