ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
استاد کے بغیر علم اور شیخ کے بغیر عمل نہیں آتا ( ملفوظ 169 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بدون استاد کے کوئی کام نہیں آسکتا ایک ادنی سی بات ہے قلم بنانا مگر وہ بھی بدون استاد کے نہیں بنا سکتا یعنی جب تک کسی استاد سے بنانا نہ سیکھے نہیں بنا سکتا میں ہی ہوں حالانکہ لوہے کے قلم سے لکھ کر میرا جی خوش نہیں ہوتا سادہ قلم سے لکھنا تو جی خوش ہوتا ہے مگر قلمل خود نہیں بنا سکتا جب ضرورت ہوتی ہے دوسرے سے بنواتا ہوں تو جب ادنی چیزوں میں استاد کی ضرورت ہے تو مسائل بدون استاد کے اور اہل علم کے سیکھے ہوئے اور پڑھے ہوئے کیسے سمجھ میں آ سکتے ہیں اور اسی طرح بدون شیخ کامل کے اصلاح باطن کس طرح ہو سکتی ہے علم میں ضرورت ہے استاد کی عمل میں ضرورت ہے شیخ کامل کی محض کتابیں دیکھ کر کام نہیں چلا سکتا جیسے مریض کہ طب کی کتاب دیکھ کر اپنا علاج نہیں کر سکتا ـ ملقب بہ تنبیہ الاحزاب علی ضرورۃ الحجاب : ( یعنی پردہ کی ضرورت ) ( ملفوظ 170 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بے پردگی اعلی درجہ ک بے حیائی اور بے غیرتی ہے نصوص اور مسائل کے خلاف ہونے کے علاوہ بے پردگی خود ایک غیرت کی چیز ہے جو کہ فطری ہے ان بے حسوں میں غیرت بھی رہی مجھ کو تو مسلمانوں کی اس حالت پر بے حد صدمہ اور رنج ہے کیا کروں اگر میرے ہاتھ میں حکومت ہو تو ایک دن میں ان کو درست کر دوں حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں ایک شخص ضبیع نام مدینہ میں وارد ہوا اور قرآن شریف کے متشابہات میں سوال جواب کرنا شروع کیا آپ نے حاضر ہونے کا حکم دیا اور سر پر قمچیاں مارنا شروع کیں بس دماغ درست ہو گیا پھر اس کو وطن واپس کر دیا اور حضرت ابوموسٰی اشعری کو جو کہ عامل تھے لکھ دیا کہ لوگوں میں اعلان کر دو اس کے پاس کوئی نہ بیٹھے کزافی روح المعانی ہمارے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ نعل دار جاتا روشن دماغ ہے واقعی صحیح ہے اور یہ فرمایا کرتے تھے جہاں چار کتابیں آسمان سے نازل ہوئی ہیں تو توریت ، زبور ، انجیل ، قرآن اگر ان سے عملی فیصلہ نہ ہو تو اس کے لئے ایک پانچویں چیز بھی حق تعالی نے نازل فرمائی ہے وہ اس آیت کے مذکور ہے : وانزلنا الحدید فیہ باس شدید ـ یعنی لوہے کو بھی نازل فرمایا ہے مراد اس سے سیف ہے اس سے عملی فیصلہ ہو جاتا ہے اسلام میں آج کل یہ ہی تو نہیں رہی اسی کی ساری خرابی ہے آزادی کا زمانہ ہے جو جس کے جی میں آتا ہے کرتا ہے جو منہ میں آتا ہے بکتا ہے اس آزادی سے یہاں تک نوبت آگئی ہے کہ عام پلیٹ