ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
والوں کو شد ہی ہونے پر رضا مند کر لیا گیا تھا وہ لوگ وعظ میں بھی آئے تھے اور وعظ کے بعد آنے والوں کو گائے کے گوشت کا پلاؤ کھلایا گیا ـ پس اسی روز دونوں جانب سے شدہی سے مایوس ہوگئ اور اسی لئے تو کہا کرتو ہوں کہ ہندستان میں گاؤ کشی شعائر اسلام سے ہے ـ اس قصد سے اس کا گوشت کھانا موجب اجر ہے ـ فضول گوئی اس طریق میں زہر قاتل ہے ( ملفوظ 309 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہاں پر خاموش بیٹھا رہنا طالبین کو بے حد مفید ہوا ہے جو لوگ چندے خاموش بیٹھ کر واپس جاتے ہیں ـ وطن پہنچ کر اس کا نفع لکھتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اس وقت تو یہ معمول تلخ معلوم ہوتا تھا مگر اس قدر نفع طویل مجاہدات سے بھی شاید نہ ہوتا جو دس دن کےاندر خاموش بیٹھنے سے ہوا ـ بد فہم لوگ اس کو ٹالنا سمجھتے ہیں ـ حالانکہ یہ بھی مجاہدہ کی ایک قسم ہے اور قسم بھی وہ جو سلف سے خلف تک معمول یہ ہے کیونکہ مجاہدہ کی چار قسمیں ہیں ـ قلت الطعام ، قلت الکلام ، قلت المنام ، قلت الاختلاط مع الانام ان میں سے محققین نے اس وقت لے لوگوں کی قوت اور صحت کو دیکھتے ہوئے دو کو حذف کر دیا ہے ـ قلت الطعام اور قلت المنام اور دو کو باقی رکھا ہے ـ قلت الکلام اور قلت الاختلاط مع الانام سو کم بولنا نہایت مفید چیز ہے ـ زیادہ بولنا اور بلا ضرورت بولنا نہایت مضر چیز ہے ـ اس سے قلب میں ظلمت پیدا ہوتی ہے ـ اور نورانیت فنا ہوتی ہے چناچہ بلا ضرورت اگر کوئی کسی سے اتنا بھی چوچھ لے کہ کہاں جاؤ گے اس سے بھی قلب میں ظلمت پیدا ہو جاتی ہے اور قلب مردہ ہو جاتا ہے اور اگر کسی کو حس ہی نہ ہو تو اس کا کیا علاج ہے اور ضرورت میں اگر شب و روز کلام کرے مثلا ایک شخص ہے کنجڑ وہ بیوی کی وجہ سے تجارت کرتا ہے اور سر پر کربوزوں کا ٹوکرا لئے دن بھر آواز لگاتا ہے کہ لے لو تو خربوزے اس سے ایک ذرہ برابر بھی قلب پر ظلمت نہ ہوگی ـ غرض فضول گوئی اس طریق میں سم قاتل ہے اس سے قلب برباد ہو جاتا ہے ـ باقی فضول کو ضروری پر قیاس کرنا مع الفارق ہے ـ مثلا شیخ اپنے کو قیاس کرنے لگے کیونکہ اسکا بولنا بضرورت ہے ـ پس یہ قیاس ایسا ہوگا جس کو فرماتے ہیں ـ کار پا کان را قیاس از خود مگیر گرچہ مانند در نوشتن شیر و شیر ( مرشد کے کاموں کو اپنے کاموں پر قیاس مت کرو ( کہ جو کچھ شیخ کرے وہی تم بھی کرنے لگو ـ