ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
نانا صاحب کی وفات کا وقت آیا ہے تو حافظ صاحب اس روز پھر تشریف لے آئے اور اسوقت کیفیت کو واپس کر دیا یہ تصرف تھا حافظ صاحب کا اس وقت نانا صاحب پر بیحد مسرت کے آثار نمایا تھے اور بڑے جوش کی باتیں کرتے تھے اسی سلسلہ میں فرمایا کہ موت کے وقت مناسب ہے کہ ایک دو عاقل میت کے پاس ہوں زیادہ بھیڑ کی ضرورت نہیں وہ ذکراللہ میں مشغول ہونے کا وقت ہے نہ کہ دنیوی خرافات کا اب تو یہ حالت ہے کہ بچوں کو لاکر کھڑا کیا جاتا ہے انکے واسطے کیا کر چلا بیوی آکر کہتی ہے مجھ کو کس پر چھوڑ چلا یہ وقت باتوں کا نہیں نہ معلوم اس پر کیا گزری رہی ہے تم کو اپنی پڑی ہے ایسے موقع پر ایک دو عاقل کے پاس ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ اسکو ذکراللہ میں مشغول رکھیں بس ـ حق تعالٰی کی رضا اور انکی یاد مقصود بالذات ہیں ( ملفوظ 219 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جو کچھ تنبیہ کرتا ہوں یا کھود کرید کرتا ہوں صرف اس واسطے کہ مخاطب کو جہل سے نجات ہو اور مقصود سے قریب ہو لوگ اکثر بیعت کو یا متعارف ذکر و شغل کو یا جوش خروش کو مقصود سمجھتے ہیں جو سخت دھوکہ ہے حقیقت پر پردہ پڑا ہوا ہے حق تعالٰی کی رضا اور انکی یہ دو چیزیں ظاہر میں پھیکی پھیکی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی مقصود بالذات ہیں گو ان کے ساتھ شورش نہ ہو جوش و خروش نہ ہو ـ صرف تصانیف اور وعظ سے معتقد نہ ہونا چاہیئے ( ملفوظ 220 ) فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا لکھا ہے کہ فلاں شخص سے آپکی باتیں سنکر دل کو بیحد اطمنان ہوتا ہے جواب یہ دیا گیا سنی سنائی روایت کا کوئی اعتبار نہیں اسپر یہ بھی فرمایا کہ تصانیف دیکھ کر یا وعظ سنکر یا زبانی تعریف سن کر اکثر دھوکہ ہو جاتا ہے اس سے ایک خاص نقشہ ذہن میں ایسا جمالیتے ہیں جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نقشہ رافضیوں کے ذہن میں ہے لیکن اگر لوگ انکی اصلی حقیقت کو دیکھ لیں تو سب سے پہلے حضرت علی کے یہ شیعی ہی دشمن ہوں یہ دیکھ کر یوں کہیں کہ یہ کیسے حضرت علی ہیں یہ تو حضرت ابوبکر ہیں یہ عثمان ہیں ایسے کسی جاہل نے ایک مسجد کی محراب میں لکھا تھا ـ چراغ و مسجد و محراب منبر ابوبکر و عمر عثمان و حیدر وہ جاہل چھری لیکر حضرت علی کے نام پر چڑھ گیا کہ ہم تو تمہاری وجہ سے لڑتے مرتے پھرتے ہیں اور تم کو جب دیکھتے ہیں ان ہی کے پاس بیٹھا دیکھتے ہیں ان سے جدا ہی نہیں ہوتے یہ کہہ کر حضرت علی