ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
کے متعلق ممکن ہے کہ آجکل یہ شبہ ہو کہ یہ کیسا منظرہ نہ دلیل کا زیادہ اہتمام نہ اس کا کافی جواب اور مناظرہ ختم دیکھے حضرت عمر فاروق اور حضرت ابوبکر صدیق کا مناظرہ مانعین زکوۃ سے قتال کے بارہ میں کس شان کا ہوا یہ اپنی کہتے رہے اور اپنی مگر اسی سے حضرت عمر فاروق کو شرح صدر ہو گیا جمع قرآن کے مشورہ میں بھی یہی ہوا کہ ایک فرمارہے ہیں ـ واللہ ھو خیر ۔ اور یہ ہی کہتے رہنے سے دوسری جانب شرح صدر ہوگیا ظاہرا کیا یہ کوئی مناظرہ تھا مگر درحقیقت علوم اصلی وہی تھے اصلی مناظرہ وہی تھا کہ واللہ ھو خیر ۔ کہنے ہی سے مناظرہ ختم ہو گیا یہ اثر طلب کی نیت کا تھا وعدہ ہے حق تعالی کا والذین جا ھدوا فینا لنھدینھم سبلنا مناظرے اب بھی ہوتے ہیں مگر حق واضح نہیں ہوتا اس کا اصلی سبب یہ ہے کہ طلب حق کا قصد نہیں ہوتا بلکہ حق کو قلب میں آنے سے دفع کرتے ہیں آجکل کے مناظرہ کا اصل مقصد غلبہ ہوتا ہے ہیٹی نہ ہو سکی نہ ہونی چاہیئے آخرت میں ذلت اور سبکی ہو حضرت امام صاحب نے اپنے صاحبزادے کو مناظرہ سے منع فرمایا تھا صاحبزادہ نے عرض کیا آپ بھی تو مناظرہ کرتے تھے امام صاحب نے عجیب بات فرمائی کہ بھائی ہمارے تمہارے مناظرہ میں فرق ہے ہم دل سے یہ چاہتے ہیں کہ خصم کے منہ سے حق بات نکلے اور ہم اس کو قبول کر لیں اور مناظرہ بند کردیں گو ہم ہار ہی جائیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ خصم کے منہ سے حق بات نکلے کہ ہم کو قبول کرنا پڑے اس لئے ہمکو مناظرہ جائز تھا اور تم کو نا جائز اور اس وقت تو نہ وہ صورت رہی نہ یہ صرف یہ پیش نظر ہوتا ہے حق کو رد ہی کرنا پڑے او اسی نیت کی درستی کے لئے مناظرہ میں میں ایک اور شرط لگایا کرتا ہوں کہ جس سے گفتگو ہو اس سے بے تکلفی ہو اس میں یہ مصلحت ہے کہ بے تکلف دوست کی بات مان کر عدتا میں ہارتا ہوا شرماؤں اور نہ عجز کا اقرار کرتے شرماؤں اور ایسی بے تکلفی دوستوں میں ہوتی ہے یا استاد شاگرد میں ہوتی ہے باقی یہ آجکل جو اہل باطل سے مناظرہ کرتے پھرتے ہیں اگر اہل باطل کے اسکات کی ضرورت ہو تکہ دیکھنے والوں والوں پر ان کا عجز ظاہر ہو جاوے اس کو میں منع نہیں کرتا باقی قبول کی توقع سے بیکار ہے میرا جو طرز خاص اعتراض کے جواب میں مین اسکو ایک واقعہ کے پیرایہ میں بیان کرتا ہوں تحریکات کے زمانہ میں ایک مولوی صاحب سے مکاتبت ہوئی وہ یہاں پر اسی میں گفتگو کرنے کے لئے آنا چاہتے تھے میں نے ان کو جواب لکھا جس کا حاصل یہ ہے کہ گفتگو کی کئی قسمیں ایک افادہ اور ایک استفادہ اور ایک مناظرہ اب اگر افادہ مقصود ہے تو اجازت ہے مگر میرے ذمہ اس کا جواب نہ ہو گا بس سن لوں گا یہ تو آپ کی طرف سے تبلیغ ہو گی جب فرض ادا کردیا