ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
ان لوگوں نے اختیار کیا اور پھر اس کو تاویل سے اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ داڑھی منڈانا تو خاص جہاد کے موقع پر بھی جائز نہیں اور یہ محض جاہلانہ خیال ہے کہ داڑھی کے ہوتے ہوئے دشمن پر ہیبت نہ ہوگی رعب نہ ہوگا بلکہ جہاد میں بھی داڑھی والے کا رعب اور ہیبت ہوتی ہے کہنے کی تو بات نہ تھی کہتے ہوئے شرم آتی ہے مگر بضرورت کہتا ہوں کہ آپ کے ملک میں آپ ہی کے دوش بدوش ایک قوم ہے سکھوں کی اس کو دیکھ لیجئے کیا وہ پولیس میں نہیں وہ جنگ پر نہیں جاتے مگر دیکھ لیجئے کہ ان کے داڑھی ہوتی ہے یا نہیں انکا ذکر اس لئے کیا کہ آخر کس طرح ان بے غیرتوں کو غیرت بھی دلاؤں اور سن لیجئے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ انگریزوں کے بادشاہ کے لئے قانونا حکم ہے داڑھی رکھنے کا اسی طرح اگر عورت حکمران ہو تو اس کو چوٹی کٹانے کی ممانعت ہے یہ اس قوم کا فتوی ہے جن کے یہ کور باطن مقلد ہیں خود انگلستان اور یورپ میں اسی قانون کا بادشاہوں کے لئے نفاذ ہے سو اگر یہ ذلت کی چیز سمجھی جاتی تو وہ اس کو کب گوارا کرتے پھر وہ بھی بادشاہ کے لئے ان باتوں کو سوچ کر کچھ تو شرم آنا چاہئے اس کے بعد ہم مشتاق ہیں کہ یورپ کے فتوی سن لینے کے بعد ہمارے لیڈر صاحبان اور ان کے ہم خیال اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں اس لئے کہ اگر عزت کی بات داڑھی منڈانا ہے تو بادشاہ کیلئے بہت زیادہ ضرورت ہے عزت کی اس کا کیا جواب دیتے ہیں یہ تو مدعی ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ ایک مرتبہ حیدرآباد دکن میں ایک شخص وہابیت کے الزام میں پکڑا گیا اور دلیل یہ بیان کی گئی کہ تم کو جب دیکھو مسجد سے نکلتے ہوئے جب دیکھو قرآن پڑھتے ہوئے جب دیکھو نماز پڑھتے ہوئے ایک اور ان کے خیر خواہ شخص نے کہا کہ نہیں یہ وہابی نہیں میں نے ان کو فلاں رنڈی کے مجرے میں دیکھا تھا فلاں جگہ قوالی میں دیکھا تھا فلاں قبر کو سجدہ کرتے دیکھا تب بیچارے چھوڑے گئے اور جان بچی اس کا حاصل تو یہ ہوا کہ اگر کسی میں خدا کی یاد ہے اور فرمانبرادری ہے تو مجرم قابل سزا بد عقیدہ اور اگر خدا کی نافرمانی اور مصیبتوں کا ذخیرہ ہے تو خوش عقیدہ اور قابل مدح اور پکے سنی اور حنفی انا للہ وانا الیہ راجعون مگر اب الحمدللہ یہ رنگ نہیں رہا حیدرآباد میں بمبئی کے متعلق ایک صاحب نے روایت بیان کی تھی کہ وہاں پر وہابی کی پہچان یہ ہے کہ ٹخنوں سے اونچا پاجامہ ہو گھٹنوں سے نیچا کرتہ ہو پیشانی پر سجدہ کا نشان ہو ارکان نماز کی ادائیگی میں تعجیل نہ کرتا ہو بلکہ اطمینان سے نماز کو ادا کرتا ہو یہ وہابی کی پہچان ہے سو اگر یہی باتیں ہیں تو اس کا تو کسی کے پاس بھی کوئی علاج نہیں ـ