ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
ہوا - خون میں اس قدر حدت پیدا ہوگئی تھی کہ بعض اطباء نے احتراق کا اندیشہ بتلادیا تھا چنانچہ میں علاج کے لئے والد صاحب کے پاس میرٹھ چلاگیا - والد صاحب پر بوجہ شفقت کے بیحد اثر ہوا ایک جراح کو دکھلایا اس نے ایک نہایت تلخ دوادی جو دہی میں کھائی جاتی تھی - والد صاحب یہ کرتے کہ کچھ دہی پہلے ہاتھ پر رکھتے پھر اس پر دوا رکھتے اور پھر اس پر دہی رکھ کر مجھ کو کھلا دیتے اس کے کھانے سے تمام حلق کڑوا ہوجاتا اور بہت دیر تک اس کی تلخی کا اثر رتا - اب ظاہر ہے کہ مقصود ہی کھلانا نہ تھا بلکہ اس تلخدوا کا کھلانا تھا - اور دہی کے ساتھ اس لئے کھلاتے تھے کہ تلخی کی ناگواری کسی قدر کم ہوجائے اور وہ دواکھائی جاسکے ورنہ اس میں اس قدر تلخی تھی کہ بلا دہی کے میں کھا ہی نہیں سکتا - لیکن باوجود اس کے بھی اس دوا ہئ کی تلخی غالب رہتی تھی اسی طرح یہاں سمجھ لیجئے کہ لذت مقصود نہیں - مقصود خوف و خشیت ہی ہے لیکن لزت اس لئے دے دی جاتی ہے کہ خشیت کی سہار ہوکے - پھر بھی غلبہ خشیت ہی کا رہتا ہے اور کیوں نہ ہو بندہ پیدا ہی اس واسطے ہوا ہے کہ وہ اس کشمکش میں رہے ورنہ عالم ارواج ہی سے آنے کی کیا ضرورت تھی اس متحان ہی کے لئے تو یہاں بھیجئے گئے ہیں اور یہی تو حکمت روح کو جسد کے ساتھ متعلق کرنے میں ہے - جب تک جسد کے ساتھ روح کا تعلق ہے یہی کشا کش رہے گی اس سے چھٹکارا کی تمنا ہی کرنا فضول ہے انسان اس کشمکش ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ورنہ عبادت کے لئے فرشتے کیا کچھ کم تھے - شاہ نیاز اسی کو کہتے ہیں - کیا ہی چین عدم میں تھا نہ تھا زلف یار کا کچھ خیال سو جگا کے شور ظہور نے مجھے کس بلا میں پھنسا دیا مجذوب کا قول ہے کہاں تھا کون تھا اور اب کہاں ہوں کیا ہوں میں اس آب و گل کے جو دلدل میں آ پھنسا ہوں میں تھے کہاں گردش تقدیر کہاں لائی ہے بادہ پیمائی تھی یا بادیہ پیمائی ہے