ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
تعالیٰ کے ذمہ قرض ہے اور کیا تمہارا استحقاق ہے کہ ان کے ذمہ پورا کرنا واجب ہو - ایک اشکال اس صورت میں یہ وارد ہوتا ہے کہ ہم سے خدائے تعالیٰ کا وعدہ ہے اس لئے ہم کو ملنا چاہئے اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کون ساوعدہ پورا کر رہے ہیں وہ اپنا وعدہ پورا کریں گے تو گویا تمہارے ایفاء نہ کرنے کی حالت میں خدا تعالیٰ کا وعدہ ہی نہیں چنانچہ ارشاد ہے اوفو بعھدی اوف بعھدکم کہ تم میرے عہد کو پورا کرو تو میں اپنا عہد پورا کروں گا - ایسا خیال کرنا حقیقت میں کبر ہے جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں - ہمیں اپنی حقیقت کی خبر نہیں - اگر حقیقت کی خبر ہو تو پانچ وقت کی نماز کی توفیق ہونے پر بھی ہمیں تعجب ہو - اور معلوم ہو کہ ہم تو اس قابل بھی نہ تھے یہ محض ان کا فعل ہے کہ ہمیں اس کی بھی توفیق ہوئی - اگر کوئی شخص کسی امیر کے یہاں سڑا ہوا خربوزہ لے جاوے اور انعام کے استحقاق کا دعویٰ کرنے لگے تو اس کیا گت بنے گی ظاہر ہے دربار سے ذلت کے ساتھ نکالا جائے گا - حق تعالیٰ کا وہ فضل ہے کہ ہم کو سڑے ہوئے پر بھی انعام دیتے ہیں اور اپنے دربار سے نہیں نکالتے اس کو ہم غنیمت نہیں سمجھتے - پھر فرمایا کہ کیسے درجات - اس کا تو ہم کو خطرہ بھی نہیں آتا - یہی مد نظر ہے کہ جوتیاں نہ لگیں جس کے ہم مستحق ہیں - اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص فوجداری کا مجرم ہو اور مستحق جیل خانہ کا ہوا اور حاکم اس پر رحم کھا کر بری کردے اور وہ یوں کہنے لگے لہ مجھے گاؤں تو ملے ہی نہیں تو یوں کہا جائے گا کہ تیرا گاؤں ملنا تو یہی ہے کہ توجیل خانہ سے بچ گیا اس سے کمال عبدیت اور حقیقت شناسی اور شان تربیت مریدین ظاہر ہے - ذوق حاصل کرنے کا طریقہ ابتدا ہر امر کی تقلید محض ہے فرمایا کہ ذوق پیدا ہوتا ہے اہل اللہ کی صحبت اور ان کی جوتیا سیدھی کرنے سے جو کہ اعتقاد و انقیاد کے ساتھ ہو کیونکہ یہاں محض تقلید سے کام چلتا ہے چوں وچرا کرنے سے کام نہیں چلتا - فہم وخاطر تیز کردن نیست راہ جز شکستہ می نگیرد فضل شاہ جیسے کوئی بچہ استاد کے سامنے الف بے لے کر بیٹھے اور استاد پڑھا وے کہہ الف اور کہہ بے اور بچہ یوں کہنے لگے کہ الف کی صورت ایسی کیوں ہوئی اور بے کی ایسی کس واسطے ہوئی تو