ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
مراعات بالاہل کی تعلیم و تاکید فرمایا کہ میں تو فتویٰ نہیں دیتا لیکن مشورہ ضرور دوں گا کہ گھر کے انتظام بیوی کے ہاتھ میں رکھنا چاہئے یا خود اہنے ہاتھ میں - اوروں کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہئے - چاہے وہ بھائی یا بہن ہو یا ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں - اس سے بیوی کی بڑی دل شکنی ہوتی ہے یا تو خاوند خود اپنے ہاتھ میں خرچ رکھے ورنہ اور رشتہ داروں میں سب سے زیادہ مستحق وہی ہے بیوی کا صرف یہی حق نہیں کہ اس کو کھانا کپڑا دے دیا بلکہ اس کی دلجوئی بھی ضروری ہے دیکھئے فقہا ن بیوی کی دلجوئی کو یہاں تک ضروری سمجھا ہے کہ اس کی دلجوئی کے لئے جھوٹ بولنا بھی جائز فرمادیا - اس سے کتنی بڑی تاکید اس امر کی ثابت ہوتی ہے یہاں سے بیوی کے حق کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس کی دلجوئی کے لئے خدانے بھی اپنا ایک حق معاف کردیا - ف: - اس سے حضرت والا کی مراعاۃ بالا ہل کی تعلیم و تاکید اظہر من الشمس ہے - سادگی طبیعت ؛ مراعاۃ احباب ؛ تلکف و تصنع سے حذر حضرت خواجہ صاحب جبکہ بوضع تنخواہ طویل رخصت لے کر تھانہ بھون حاضر ہوئے تھے تو ان کی اہلیہ نے حضرت کی دعوت کرنے کا معہ متعلقین وچند اعزا ومہمانان کے ارادہ کیا - حضرت نے منع فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ آپ یہاں مقیما نہ زندگی نہ بسر کیجئے - بلکہ مسافرانہ طور پر رہیے دعوتوں کو بالکل حذف کیجئے نہ میری نہ کسی کی اگر ایک پیسہ بھی کہیں سے بچ سکے تو بچایئے - اگر گھر میں کوئی خاص چیز پکی اور محبت سے کھلانے کو جی چاہا تو ایک پیالہ میں رکھ کر نھیج دی جاوے دو روٹیاں بھی اوپر رکھ دیں - کوئی خاص تکلف کی ضرورت نہیں - یہ کیا ضرر ہے کہ دعوت ہی ہوا اور خاص طور سے اہتمام کر کے کوئی نئی چیز بھی پکوائی جاوے - اور آپ سے یہ بھی کہنا ہے کہ فلاں وقت آپ کے یہاں سے جو کھانا آیا تھا وہ زیادہ تھا ہیں- اجی ہم دو میاں بوی ہیں باقی اور تو سب جی جوڑا کنیہ ہے جس وقت چاہیں حذف کردیں اگر کبھی کوئی چیز بھجی جاوے تو سب اس قدر کہ ہم دونوں مل کر کھالیں مع اس کھانے کی رعایت کے جو خود ہمارے یہاں پکا ہو یعنی بس و کھانا ایک شخص کے لائق ہو پھر ہم چاہئے سب خود کھالیں