ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
تاکہ توبہ استغفار سے تدارک کروں الہام ہوا کہ فلاں وقت گستاخی سے ایک برا کلمہ کہا تھا آج اس کو خمیازہ بھگت رہے ہو - بہت روئے پیٹے گریہ وزاری کی تب زبان چلی - ذکر اللہ کو اپنا اصلی کام سمجھو فرمایا کہ اگر ذکر اللہ کو اپنا اصلی کام سمجھ لو توجو کام اس میں مخل ہوگا اس سے جی گھبرائے گا اور معاصی سب اس میں سب مخل ہیں اس لئے ان سب سے نفرت ہوجائے گی - پھر رفتہ رفتہ فضول مباحات سے بھی نفرت ہونے لگے گی - نفع کی چیز میں کسی کی ہنسی کی پراوہ نہیں کی جاتی فرمایا کہ تجربہ ہے کہ تسبیح ہاتھ میں رکھنے سے خدا یاد آتا ہے اسی لئے صوفیہ نے اس کا نام مذکرہ رکھا ہے - اگر یہ کہو کہ تسبیح ہاتھ می رکھنے سے لوگ ہنسیں گے تو جواب یہ ہے کہ لوگ چاہے ہنسیں لیکن تم نہ روؤ گے - اب لوگ تم لوگ ہنسیں گے اور کل قیامت میں تم ان پر ہنسو گے پس ان کو اب ہنسنے دو ( اگر تم کو کہیں سے ہزار روپے ملتے ہوں مگر ان کے لینے میں لوگ ہنستے ہو تو انصاف سے کہو کہ وہاں سے روپے لیتے ہو یا ہنسی کے خیال سے چھوڑ دیتے ہو یقینا لے لیتے ہو اور ان کی ہنسی کی کوئی پروا نہیں کرتے آخر وجہ کیا کہ وہاں تو ہنسی کی پروا ہے اور یہاں نہیں - بات یہ ہے کہ اس کو نفع کی چیز سمجھتے ہو اور نفع کی چیز میں ہنسی کی پروا نہیں کی جاتی - پھر کیا یاد خدا نافع نہیں ہے اگر نافع ہے تو اس کی کیا وجہ کہ روپیہ کے لینے میں ہنسی مانع نہیں ہے اور ذکر خدا میں مانع ہے اور یہ ہنسی بھی جب تک ہے کہ پہلے پہلے کام کر رہے ہو پھر پہلے جو چند روز کے بعد کوئی نہیں ہنستا ـ بنظر غائر دیکھئے ـ تو اصل میں ہنسی غفلت پر ہوتی ہے یعنی پہلے جو تم کو غلفت تھی وہی سبب اس وقت ہنسنے کا ہے چنانچہ جو شخص پہلے سے غلفت میں نہ ہو بلکہ ہمیشہ سے ذاکر ہو اس پر کوئی ہنستا تو خدا کے بندے جس بات پر ہنسی ہوئی تھی تم اب پھر اسی میں رہنا چاہتے ہو ـ تسبیح ہاتھ میں لو چند روز کے بعد کوئی نہیں ہنسے گا بلکہ جب یہ معلوم ہو جائے گا کہ اب اس کی غفلت جاتی رہی تو ہنسنا کہاں اب تو اس کے پاؤں چومیں گے ـ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کفار اسلام پر ہنستے تھے اور قرآن پر ہنستے تھے اتخذوھا ھزوا ولعبا