ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
جیش نہ تھی جیسا کہ ظاہرا معلوم ہوتا ہے اسی بناء پر ایک مولوی صاحب نے کہا پھر تو خشوع کی ضرورت نہیں کیونکہ عمر نماز میں تجہیز جیش فرماتے تھے اس پر حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ یہ منافی خشوع نہیں اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے وزیر دربار میں جاتا ہے اور امور سلطنت کو پیش کرتا ہے وہ امور حضوری باداشاہی کے خلاف نہیں سمجھے جاتے کیونکہ اس کی حضوری یہی ہے اسی طرح حضرت عمر کو خیال کیجئے کیونکہ ان کے سپرد یہی کام تھا - تھوڑی آمدنی کب کافی ہوسکتی ہے فرمایا کہ آدمی قناعت اور اکتفا اور ضروری سامان کے ساتھ رہے تو تھوڑی آمدنی میں بھی رہ سکتا ہے اور فرض منصبی کو بھی ایسا ہی تقویٰ والا ادا کرسکتا ہے - عوام کے معاملہ تعویز کی اصلاح فرمایا کہ عوام الناس کا اعتقاد تعویز کے بارہ میں حد سے زیادہ متجاوز ہوگیا ہے اسی واسطے طبیعت تعویز دینے کو ہیمں چاہتی - جیسے اہل سائنس کا اعتقاد ہے کہ ہر چیزمیں ایک تاثیر رکھ دی ہے جو اس سے تخلف نہیں کرسکتی اور تاثیر رکھ دینے کے بعد نعوذ باللہ اللہ میاں کو بھی قدرت نہیں رہی کہ اس کے خلاف ہو سکے - مثلا آگ کے اندر تاثیر جلانے کی رکھ دی ہے اب یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آگ نہ جلائے اسی طرح عوام الناس کا اعتقاد تعویز کی نسبت ہے یوں سمجھتے ہیں کہ جب تعویز باندھ دیا تو جس غرض سے باندھا اس میں تخفیف ہی نہ یوگا اور اگر تخلف ہوجاوے تو یہ احتما ہوتا ہی نہیں کہ تعویز کا اثر غیر لازم ہے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ شرط میں کمی رہ گئی ہوگی - میں تو تعویز دینے میں اللہ کی طرف دعا کے ساتھ توجہ کرتا ہوں حضرات انبیاء کا بھی یہی طریقہ تھا کہ وہ رجوع الی اللہ کرتے تھے کہ لوگوں کی اصلاح ہوجاوے نہ یہ کہ ان کے قلوب پر تصرف کرتے تھے اور زور ڈالتے تھے کہ قلوب کو اپنی طرف پھیرلیں - بخلاف عامل کے کہ وہ تو توجہ اس طرح کرتے ہیں کہ '' میں خود مریض کے مرض کو نکال رہا ہوں '' -