ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
ہوئے امامت کی - حکیم محمد مصطفیٰ صاحب نے بعد نماز دریافت کیا کہ امام نے اگر سنتیں نہ پڑھی ہوں تو امامات میں کیا حرج تو نہیں - فرمایا کہ میں نے مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا تو فرمایا کچھ حرج نہیں - حضرت والا اوقات کے ایسے پابند ہیں کہ نظیر کا ملنا مشکل ہےتمام دن و رات کے اوقات ایسے تقسیم ہوئے ہیں کہ ایک لحظہ بیکار نہیں رہتا - لیکن ساتھ ہی اس کے وقتوں کی پابندی عامیانہ اور جاہلانہ نہیں جیسے بعض جگہ دیکھا کہ صف میں بیٹھے ہیں اور نظر گھڑی پر ہے - ادھر گھنٹہ بچنا شروع ہوا اور ادھر تکبیر ہوئی اور اس پر لڑنے مرتے ہیں - حضرت والا کے یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ تو لہو ولعب ہے - عارف کی نظر ہر کام میں حقیقت پر ہوتی ہے اور زوائد کو بقدر ضرورت اختیار کرتا ہے - پابندی وقت کوئی مقصود بالذات فعل نہیں - انتظام جماعت کے لئے ذریعہ ہے اس کو مقصود قرار دے لینا حقیقت ناشناسی ہے - حضرت والا کی مسجد میں قصہ کے نمازی ایک دو سے زائد نہیں ہوتے کیونکہ یہ مسجد ایک کونہ پر پے تمام جماعت طلبہ اور خدام اور خدام مدرسہ اور مہمانوں کی ہوتی ہے یہاں دو چار منٹ ادھر ادھر ہوجانے سے کسی کا حرج نہیں ہوتا اس واسطے حضرت والا کی عادت ہے کہ جب گھڑی میں وقت ہوگیا تو ادھر ادھر دیکھ لیتے ہیں - سب لوگ تیار ہیں یا نہیں اگر تیار ہیں تو دو چار منٹ کا کچھ خیال نہیں فرماتے حتیٰ کہ رمضان میں اذان مغرب ہوجانے کے بعد اطمینان سے مہمانوں کو افطاری سے فارغ ہونے اور کلی کر لینے کا موقع دیتے ہیں حتیٰ کہ کبھی دس منٹ کے قریب بعد ختم اذان لگ جاتے ہیں نہ عوام کی طرح کہ موذن نے اذان ختم کی اور ادھر تکبیر شروع ہوگئی حتیٰ کہ موذن کلی کرنے نہیں پایا - امام کے منہ میں بھی لقمہ ہوتا ہے - جماعت میں سے کوئی بھی تکبیر اولیٰ میں شریک نہیں ہوسکتا یہ صرف لہو ولعب اور بے علمی ہے - ف : - اس سے حضرت والا کی پابندی اوقات عاقلانہ ثابت ہے - ظرافت مدرسہ کے پچدرہ مین چڑیا کے گھونسلے میں سے دو پیسے گرے وہ حضرت والا کے سامنے پیش کئے گئے کر فرمایا کہ ایک کی دال منگاؤ اور ایک کے چاول اور کھچڑی پکاؤ اور چڑیا اسے کھائے اور جن چڑا آوے تو کہے درو موئے میری آنکھیں دکھتی ہیں - یہ قصہ تو