ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
سر جدا کرداز تنم یارے کہ باما یار بود قصہ کوتہ کرد ورنہ درد سر بسیار بود یہ لوگ بڑے بے فکر ہوتے ہیں انہیں تو بس ایک ہی فکر ہے جیسے عصائے موسیٰ اتنا بڑا سانپ ہوگیا تھا کہ سارے سانپوں کو نگل گیا تھا ایسے ہی ان کی یہ فکر ایسی ہے کہ ساری فکروں کونیست ونابود کردیتی ہے - جنت ایک چٹیل میدان ہے اور اس کا درخت سبحان اللہ الخ ہے - اس حدیث کا مطلب فرمایا کہ حدیث میں ہے کہ جنت ایک چٹیل میدان ہے اور اس کے درخت سبحان اللہ والحمد للہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر ہیں - اس سے بعض مبتدعین معتزلہ کو دھوکہ ہوا کہ جنت ونعمائے جنت فی الحال موجود نہیں - بلکہ ہم جیسے جیسے عمل کریں گے - یہ عمل ہی اس شکل سے ظہور کریں گے حالانکہ جنت کا مع نعمائے حسیہ بالفضل موجود ہونا منصوص ہے مگر باوجود ہونے کے ہیں ان ہی اعمال کے ثمرات - کیونکہ خدا تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون شخص کیا کیا عمل کرے گا - اسی مناسب جزا سزا کی صورت پہلے سے بنا کر اس کے وجود واقعی کی خبر دینے کے لئے یہ فرمایا اعدت للکافرین اعدت للمتقین جیسے میزبان کو پہلے سے معلوم ہو کہ میرے مہمان کا مزاج علیل ہے اور وہ پہلے سے اس کے مزاج کے مناسب کھانا تیار کر کے رکھ دیوے پس فی نفسہ قیعان یعنی چٹیل میدان نہیں بلکہ جنتیوں کے حق میں قیعان ہے جیسے ایک شخص نے دس ہزار روپیہ اپنے خادموں کے لئے خزانہ جمع کردیئے اور فی کام دس بیس روپیہ علی قدر مراتب نامزد کردیئے پھر وہ شخص سب کو خطاب کر کے یوں کہہ سکتا ہے کہ اتنا روپیہ خزانہ میں رکھا گیا ہے اگر تم خدمت کروگے تو خزانہ میں سب کچھ ہے ورنہ یوں ہی سمجھو کہ بالکل خالی ہے اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ قبل خدمتیں کرنے کے تمہارے حق میں گویا خزانہ خالی ہے خدمتیں کرنا شروع کردو گے اب سمجھو گے کہ وہ پر ہوگا - واقع میں تو وہ اب بھی پر ہے لیکن تمہارے حق میں وہ جبھی پر سمجھا جاوے گا جب تم خدمتیں کروگے تو معنی حدیث کے یہ ہیں کہ اعمال کے ثمرات تو پہلے سے مہیا کردیئے گئے ہیں لیکن ابھی وہ کسی کے ملک نہیں بنائے گئے