ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
کی حالت میں سو اس کی حقیقت اکراہ علی قبول الاسلام نہیں ہے بلکہ اکراٰہ علی ابقا الاسلام بعد قبولہ ہے - اس کی بناء بھی وہی دفع فساد ہے جو اصل مسئلہ سیف کی بناء ہے - اتنا فرق ہے کہ کفر قبل الاسلام کا شرر اور ضرر اخف ہے اس لئے اس کا تدارک جذبہ یا صلح سے جائز رکھا گیا اور کفر بعد الاسلام یعنی ارتد کا شرر اور ضرر اغلظ ہے کہ ایسا شخص طبعا بھی زیادہ مخالف و محارب ہوتا ہے اور دوسروں کو اس کی حالت دیکھ کر حق میں تزبزب و تردد بھی ہوجاتا ہے نیز اس میں علت ہتک حرمت بھی ہے اس لئے اس کا تدارک سیف تجویز کیا گیا اور مرتدہ چونکہ عادۃ محاریب نہیں ہوتی صرف تزبزب دیتک کا ضرر اس کے حبس دائم دے دفع کردیاگیا کہ عقوبت مین فطرۃ خاصہ زجر کا ہے - بہر حال قانون اسلام کا ( مع رفع تمامی شبہات) اعتراض اشاعت اسلام بالسیف کے لئے دافع ہونا ظاہر ہوگیا جو کہ حقیقت شنا سان اہل انصاف کی شفا کے لئے کافی ہے - ( النور ماہ صفر 1346ھ ) ف : - اس سے حضرت والا کا تبحر ولم - استحضار قوانین اسلام ظاہر ہے - کا تروایح میں صبی کی اقتداء حکم فرمایا کہ صبی کی تراویح نفل محض ہے اور بالغ کی سنت موکدہ ہے - دوسرے یہ کہ صبی کی نفل شروع کرنے سے واجب نہیں ہوتی اور بالغ کی واجب ہوجاتی ہے پس صبی کی نماز ضعیف ہوئی اس پر غالب بالغ کی قوی نماز کا مبنی کرنا ( جیسا کہ تراویح میں نابالغ کی امامت سے ہوتا ہے ) خلاف اصول ہونے کے سبب جائز نہیں - اور بچوں کے حفظ قران وغیرہ کی ترغیب میں رکاؤٹ ہوجانے کا عذر مسموع نہیں کیونکہ احکام کی بناء دلائل پر ہے مصالح پر نہیں دوسرے یہ کہ بجائے تراویح کے نوافل میں انکا پڑھ لینا اس محتمل رکاوت کا تدارک یک ہے چنانچہ اس کا کافی ہونامشاہدہ ہے علا وہ اس کے یہ ہے کہ صبی میں ان مصالح کے ساتھ مفاسد بھی ہیں کہ اکثر وہ احکام طہارت و صلٰوہ سے ناوقف اور متساہل بھی ہوتے ہیں پس اس کی تجویز میں بالغین کی نمازوں کا فساد بہت غالب ہے - فرمایا کہ بلوغ کی اگر کوئی علامت نہ دیکھی جاوے تو بقول مفتی پندرہ سال کی عمر میں بلوغ کا حکم کردیا جاتا ہے اس وقت اس کے پیچھے تراویح میں اقتداء جائز ہے -