ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
اعتدال کا درجہ عفت ہے اور قوت غضبیہ کا درجہ افراط تہور ہے - اور گھٹا ہوا درجہ جبین ہے - اعتدال کا درجہ شجاعت ہے تو یہ نو چیز ہوئیں جو تمام اخلاق حسنہ وسیئہ کو حاوی ہیں اور مطلوب ان نو درجوں میں صرف تین درجے اعتدال کے ہیں یعنی حکمت ؛ عفت اور شجاعت ؛ باقی سب رذائل ہیں تو اصول اخلاق حسنہ کے یہ ہیں اور ان تینوں کے مجموعہ کا نام عدالت ہے - اسی لئے اس امت کا لقب امت وسط یعنی امت عادلہ ہے - غرض انسان وہ ہے جس میں اعتدال ہو اب آپ دیکھیں کہ دنیا میں بزرگ تو بہت ہیں لیکن انسان بہت کم ہیں چنانچہ شاعر لکھتا ہے - زاہد شدی و شیخ شدی و دانشمند ایں جملہ شدی ولیکن انساں نہ شدی جب یہ بات سمجھ میں آئی تو اب وہ سمجھئے کہ اعتدال حقیقی سب سے زیادہ مشکل ہوا - کیونکہ اعتدال حقیقی کہتے ہیں وسط حقیقی کو کہ اس میں ذرہ برابر افراط ہو نہ تفریط اور مشاہدہ سے اس کا دشوار ہونا ظاہر ہے اور پل صراط اسی اعتدال کی صورت مثالیہ ہے اور اس کی دشواری تلوار کی تیزی اور بال سے زیادہ باریکی کی صورت میں ظاہر ہوئی - کرامت واستدراج کا فرق اگر کسی خارق کے بعد قلب میں زیادہ تعلق مع اللہ محسوس ہو تب تو وہ کرامت ہے اور اگر اس میں زیادت محسوس نہ ہو تو قابل اعتبار ہے - اور کرامت استدراج میں ایک ظاہر فرق یہ ہے کہ صاحب کرامت متصف بالایمان والعبادۃ وغیر ہ ہوگا اور صاحب استدراج افعال منکرہ میں مبتلا ہوگا اور دوسرا فرق اثر کے اعتبار سے ہوگا کہ صاحب کرامت پر انکسار کا غلبہ ہوگا اور صاحب استدراج پر ظہور خارق پر تکبر کا - سماع کے حدود فرمایا کہ اگر قرآن شریف سن کر نفسانی کیفیت پیدا ہو تو محمود نہ ہوگی مثلا کسی امرد سے قران شریف سنا اس کی آواز یا صورت سے قلب میں ایک کیفیت پیدا ہوئی تو یہاں اسباب کو نہ دیکھیں گے آثار کو دیکھیں گے اور ظاہر ہے کہ وہ کیفیت یقینا نفسانی ہوگی - ایسے ہی سماع کو سمجھ لیا جاوے - اس کے بھی حدود ہیں ہر شخص کو جائز نہیں جیسا کہ آج کل ہر کس و