ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیت ایسی تھی کہ کوئی آپ کے سامنے بات نہیں کرسکتا تھا اور نبوت کا فائدہ اور غرض ہے تعلیم - تو اس صورت میں اس کے پورا ہونے کی کیا صورت ہے جب تک کہ لوگوں کو انس نہ ہو - اس انس کو پیدا کرنے کیلئے آپ قصدا اپنی ہیبت گھٹاتے اور کبھی کبھی مزاح فرماتے تھے تاکہ لوگ دل کھول کر مافی الضمیر ظاہر کرسکیں اور جو پوچھنا ہو پوچھ سکیں اس جواب کو ملکہ نے بہت پسنس کیا اور کہا اب کوئی شبہ اسلام کے متعلق باقی نہیں رہا - ف : - اس سے حضرت والا کاروبار صیححہ کے علاوہ وقت نظر واضح ہوا - معاملہ کی صفائی - فراست و تواضع - ترحم ومرعات مع الخلق ایک طالب علم کو اجرت پر نقل خطوط کا کام دیا ہوا تھا اس نے بہت غلطیاں کیں - حضرت والا نے ان پر تشدد فرمایا - انہوں نے معذرت کی - فرمایا کہ کتاب کا ناس کرنا منظور نہیں کہاں تک یہ غلطیاں بنائی جاویں - اور ایک رقعہ ان کو لکھا کہ کئی روز سے غلطیاں بہت زیادہ اور فاش دیکھی جاتی ہیں مجھے احساس ہوا ہے کہ میری خاطر سے یہ کام کیا جاتا ہے دلچسپی سے اور مزدروری سمجھ کر نہیں کیا جاتا اگر میرا خیال ٹھیک ہے تو صاف ظاہر کردو - کتاب کے خراب کرنے سے کیا فائدہ مجھے جواب صاف مل جانے میں کلفت نہ ہوگی اور کام خراب ہونے سے کلفت ہے انہوں نے نے جواب میں لکھا درحقیقت یہی بات ہے مجھ کو اس کام سے دلچسپی نہیں - کسی اور کے سپرد فرمایا جاوے - چنانچہ ایسا ہی کیا گیا پھر حضرت والا نے فرمایا لوگ مجھ کو متشدد کہتے ہیں حالانکہ ایسے لوگ موجود ہیں جو دس برس میرے پاس رہے اور کبھی اف کرنے کی نوبت نہیں آئی - یہ غلطیاں وہ ہیں جن کی وجہ تغافل ہے جو آج کل عام طور سے طبائع میں ہے - میں کسی سے بلا اجرت کام نہیں لیتا ہوں حالانکہ رواجا اور قانونا ہر طرح مجھے حق ہے کہ کام لوں کیونکہ کوئی مجھ سے بیعت ہے کوئی شاگرد ہے لیکن میں اس کو حرام شرعی سمجھتا ہوں میں اس کو داخل تکبر سمجھتا ہوں جیسا کہ رؤسا راہگیروں سے کام لیا کرتے ہیں کہ ارے فلانے بازار میں فلانے سے یہ کہتے جانا - ایسا مزاق بگڑا ہے کہ لوگ اس کو کچھ بھی نہیں سمجھتے ہیں - وہ راہگیر نہ ان کی رعیت ہے نہ کوئی شناسا بمرتبہ دوستی مگر ابتداء