ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
تعلیم دین ' تراویح میں قرآن سنانے پڑھوانے کی اجرت ایک صاحب نے دریافت کیا کہ تعلیم دین پر اجرت لینے سے اجر ملتا ہے یا نہیں اور جیسے تعلیم پر اجرت لینے کو جائز کہا جاتا ہے اس طرح قرآن سنانے پر اجرت لینے کو جائز کہنے میں کیا قباحت ہے فرمایا کہ تعلیم پر اجرت لینے سے اجر نہیں ملتا - مگر تعلیم پر جو ملتا ہے اس کو اجرت کیوں قرار دیا جاوے بلکہ نفقہ ہے دین کی خدمت پرجو کہ مسلمانوں پر واجب ہے یعنی یہ شخص مسلمانوں کی خدمت دینی کررہا ہے ان کے ذمہ ہے کہ وہ اس کے نفقہ کے کفیل ہوں اور یہ ان کے ذمہ واجب ہے - جب نفقہ ہوا تو اجرت نہ ہوئی - البتہ متعین مقدار میں شبہ ہوگا کیونکہ نفقہ میں تعین نہیں ہوتی بلکہ جس قدر اس کے اخراجات کو کافی ہو وہ دینا چاہئے تو بات یہ ہے کہ یہ تعین رفع نزاع کے لئے ہے اور نفقہ کی صورت لینے میں اس کو تعلیم پر اجر بھی ملے گا جب کہ نیت اس کی اللہ کے لئے فیض پہنچانا ہے اور نفقہ ضرورتا لیتا ہو اور اس کا معیار یہ ہے کہ اگر اس کا گزارا اس طریقہ سے ہوتا ہے اور کہیں سے زیادہ کی ملازمت آجاوے اور وہ چلا جاوے تو معلوم ہوگا کہ ذرہ کا طالب ہے اور اگر نہ جاوے تو معلوم ہوگا کہ دین کا خادم ہوگا ہاں اگر تنگی سے گزر ہوتا ہو اور چلاجاوے تو مذموم نہیں - باقی جو مردوں پر قرآن پڑھتے ہیں اس قرآن پڑھنے کا قیاس تعلیم پر ٹھیک نہیں کیونکہ تعلیم میں دین کی ضرورت ہے اگر تعلیم چھوڑی دی جاوے تو دین کو ضرر پہنچے کہ ایک مدت کے بعد قرآن ضائع ہوجاوے اس لئے بوجہ ضرورت کے صورۃ امام صاحب کے مذہب کو ترک کردیا گیا بخلاف ایصال ثواب کے کہ دین میں اس کی کمی مضر نہیں - خشوع وخضوع کی تقحقیق ایک صاحب نے دریافت کیا کہ خشوع وخضوع میں عطف آیا تفسیری ہے - فرمایا کہ خشوع متعلق قلب کے ہے اور خضوع متعلق جو ارح کے خشوع کے معنی ہیں سکون چنانچہ میں سکون ہو یعنی غیر مقصود میں حرکت فکریہ نہ ہو اور جو چیز موصل الی اللہ نہ ہو وغیر مقصود ہے اور جو چیز موصل الی اللہ ہو وہ غیر مقصود نہیں - گو مقصود بالذات نہ سہی گو ظاہر میں وہ غیر معلوم ہو چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں تجہیز جیش کرتا ہوں تو ہو تہجیز منافی