ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
تھے ان کی ولایت سلب کر لیتے تھے اخیر میں انہیں ایک ایسے بزرگ ملے جنہوں نے ان بزرگ کی ولایت بھی اور جتنے بزرگوں کی ولایت سلب کر چکے تھے وہ سلب ولاتیں بھی ایک دم سے سلب کرلیں - اس پر حضرت ہنسے پھر اس سے تحقیق بیان فرمائی کہ دو حالتیں ہیں ایک تو حالت نسبت مع اللہ کی ہے یو جو متعلق ہو نسبت مع اللہ کے مثلا طاعت وعبادت جو سبب ہے قرب الی اللہ کا وہ تو موہوب ہے - یعنی حق تعالیٰ کی عطا ہے جو موجب ہے قرب کی یا مرتب ہے ہر قرب پر - اس پر کسی کا اخیتار نہیں - اور ایک ہوتی ہیں کیفیات نفسانیہ ان میں طبیعت کی خصوصیت کو اور اسباب طبعیہ کو بھی دخل ہے مثلا کیفیت شوقیہ - کہ یہ کیفیت مسبب ہے محض اسباب طبعیہ سے مثلا مزاج میں قوت ہونا - صحت کا اچھا ہونا - ہر طرح کا اطمینان ہونا یعنی معاش کی طرف سے بھی اطمینان ہو اور اعدا کی طرف سے بھی کوئی اندیشہ نہیں - ان سب اسباب کا خاصہ ہے کہ ایک قسم کی کیفیت شوقیہ نشاطیہ پیدا ہوجاتی ہے - سو یہ کیفیات نشاطیہ قوت خیالیہ کے ذریعہ سے مغلوب ہوسکتی ہے - جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایک قسم کی غبادت اور افسردگی طبیعت میں پیدا ہو جاتی ہے بعض طبیعتیں ایسی کمزور کم ہمت ہوتی ہیں کہ اس افسردگی کی وجہ سے براہ کسل عبادت چھوڑ بیٹھتے ہیں - اس طرح ان ضرر دین کا بھی ہونے لگتا ہے بواسطہ اس کی کم ہمتی کے اس کو عوام سمجھتے ہیں کہ ولایت سلب کر لی جیسے کسی کے کوئی لٹھ مارے اور وہ اپنی کم ہمتی کی وجہ سے پانچ وقت کی نماز چھوڑ دے تو اس کو کوئی کہے کہ لٹھ مال کر ولایت سلب کرلی - القائے نسبت کے معنی ایک صاحب نے پوچھا کہ شیخ جو القائے نسبت کرتا ہے اس کے کیا معنی فرمایا کہ اس کی توجہ اور شفقت میں یہ برکت ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نسبت القا فرمادیتے ہیں جیسے استاد اگر توجہ اور شفقت کے ساتھ پڑھاوے تو شاگرد کے قلب میں اللہ تعالیٰ مضامین القا فرمادیتے ہیں پس القا استاد یا شیخ کا فعل نہیں - یہی سبب ہے کہ اس قسم کے اجارہ کو فقہاء نے ناجائز کہا ہے کہ مثلا میرے لڑکے کو حساب کا ماہر کردو ہاں یہ جائز ہے کہ تم بتلا دو ماہر کردینا کسی کے اختیار میں نہیں اور بتلادینا اختیار میں ہے - پھر ان صاحب نے عرض کیا کہ یہ جو مشہور ہے کہ مشائخ بیعت کے وقت القائے نسبت کرتے ہیں اس کا ہیہ مطلب ہے فرمایا کہ بیعت کے وقت اجمالا القلائے