ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
وجوب القرینتہ واسناد المجا ذی مانصہ عطف علی استحالتہ اے و کصدور عن الموحد فی مثل اشاب الصغیر پس مصلحت دینوی کے سبب کافر کو مسلمان کہنا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سامعاملہ کرنا ہرگز مناسب نہیں کیونکہ جب کفریات کے ہوتے ہوئے کسی کو مسلمان کہا جاوے گا ناوافق مسلمانوں کی نظر میں ان کفریات کا قبح خفیف ہو جاوے گا اور وہ آسانی سے ایسے گمراہوں کے شکار ہوسکیں گے تو کافروں کو اسلام میں داخل ہنے کا انجام یہ ہوگا کہ بہت سے مسلمان اسلام سے خارج ہو جاویں گے کیا کوئی مصلحت سے مفسدہ کی مقاومت کر سکے گی چناچنہ ارشاد ہے - قل فیھما الم کبیر الخ - عقل سلیم ' حکمت شفقت علی المخلوق و رعایت متخادین کسی صاحب نے سوال کی کہ گورنمنٹ اپنی مملوکہ راضی میں رفاہ عام کے لئے ایک شفانہ خانہ بنانا چاہتی ہے اس اراضی میں بعض منہدم مساجد بھی ہیں ان کو گورنمنٹ اپنی خرچ سےبنانے کا وعدہ کرتی ہے مگر عام لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت دینا مشکل ہے - البتہ شفا خانہ کے مریضوں کو اور ملازموں کو ہر وقت اجازت ہے اور ایک مسجد کو بنانے سے کسی وجہ سے عذر کرتی ہے مگر اس کے تحفظ کے لئے احاطہ اس کا بھی بنادینے کو کہتی ہے سوال یہ ہے کہ اس صورت کو اگر مسلمان منظور کرلیں جائز ہے یا نہیں - جوابا تحریر فرمایا کہ احکام شرعیہ دو قسم کے ہیں ایک اصلی دوسرے عارضی صورت مسئولہ میں حکم اصلی یہ تھا کہ مساجد ہر طرح آزاد ہیں ان میں سے کسی وقت کسی کو نہ نماز پڑھنے سے ممانعت کی جاوے نہ آنے جانے سے - الا لمصالحتہ المساجد اور یہ حکم اس وقت ہے جب مسلمان کسی شورش کے ( یعنی بدون وقوع فی الخطر یا لحوق ضرر بالمسلمین کے ) اس قادر ہوں اور حکم عارضی یہ کہ جس صورت پر صلح کی جاتی ہے اس پر رضا مند ہوجاویں اور یہ حکم اس حالت میں ہے جب مسلمان حکم اصلی پر قادر نہ ہوں نظیر اس کی مسجد الحرام ہے جب تک اس پر مشرکین مکہ مسلط رہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نماز بھی بیت اللہ کا طواف بھی فرماتے رہے اسی درمیان میں وہ زمانہ بھی آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ عمر کے لئے مکہ