ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
کیسا ہوگا اس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کے لئے ایسا غضب ناک ہوتے ہیں جیسے شیر اپنے بچوں کے لئے نصیب ناک ہوا کرتے ہے پھر کبھی دنیا میں بھی مزہ چکھا دیتے ہیں اور کبھی آخرت پر پوری سزا کو ملتوی رکھتے ہیں اور دنیا میں کبھی تو ایسی سزادیتے ہیں جس کو یہ شخص بھی سزا سمجھتا ہے اور کبھی اس طرح میٹھی مار مارتے ہیں کہ یہ اس کو انعام سمجھتا ہے جیسا کہ ایک مجزوب نے ایک سپاہی کو جس نے انہیں ہنڑ ماردیا تھا بددعا دی تھی کہ اللہ اس کو تھانہ دار کردے اور وہ چند ہی روز میں تھانہ دار ہوگیا تھا - نا اتفاقی محمود اور اتفاق مزموم کی صورت فرمایا کہ نا اتفاقی اس واسطے مزموم کہ یہ دین کو مضر ہے اور اگر دین کو مفید ہوگو دینا کو مضر ہوتو وہ مزموم نہیں چنانچہ ایک نااتفاقی وہ بھی ہے جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اختیار فرمایا تھا چنانچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراھیم والزین معہ از قالو القومھم انا براء منکم ومماتیون من دون اللہ کفرنا بکم و بدبیننا وبینکم العداوۃ والبخضاء ابدا حتی تومنوا باللہ وحدہ کیا اس ناتفاقی کو کوئی مزموم کہہ سکتا ہے اور ایک اتفاق وہ تھا کہ جس کے بارے میں حضرت ابراہیم علیہ اسلام فرماتے ہیں وقال انما التخنتم من دون اللہ اوثانا مودۃ بینکم فی الحیوۃ الدنیا ثم یوم القیامۃ یکفر بعضکم ببعض ویلعن بعضکم بعضا وماوکم النار اس سے صاف معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کے مقابلہ میں جو کفار تھے باہم اتفاق واتحاد کامل تھا مگر اس اتفاقی کو کوئی محمود کہہ سکتا ہے ہرگز نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اس اتفاق کی بنیادیں اکھاڑ پھینک دی تھیں یہ اتفاق خلاف حق پر تھا - پس خوب سمجھ لو کہ اتفاق صرف اسی وقت مطلوب ومحمود ہے جبکہ دین کو مفید ہو اور نا اتفاقی جھبی مزموم ہے کہ دین کو مضر ہو اور اگر اتفاق دین کو مضر ہو اور نا اتفاقی دین کو مفید ہو تو اس وقت نااتفاقی ہی مطلوب ہوگی - قرآن کے لقب فرقان کے معنی فرمایا کہ قرآن کا ایک لقب فرقان بھی ہے جس سے معلوم ہوا کہ قرآن ہمیشہ جوڑتا