ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
سہولت کر دی ہے یہ نہیں کہ بلا ضرورت حسن فروشی کرتی پھریں پس شریعت نے نہ تو تنگی کی اور نہ وسعت دی ہر امر میں اعتدال رکھا ہے اسی اعتدال کو کسی نے کہا ہے ـ گر چہ خدا گفت کلوا واشر بوا لیک نفر مود کلواتا گلو غالب نے تمسخر سے کہا تھا ـ ہم تو توبہ جب کریں گے شراب و کباب سے قرآن میں جو آیا کلوا وشربوا نہ ہو کسی نے خوب جواب دیا ہے ـ تسلیم قول آپ کا ہم جب کریں جناب جب آگے واشربو کے ولا تسرفوا نہ ہو شریعت سراپا اعتدال و حفظ حدود ہے اس حفظ حدود پر ایک واقعہ یاد آگیا وہ یہ کہ ایک صاحب تھانہ بھون کے رہنے والے ولایت گئے تھے ان کی توجہ سے بعض بڑے طبقہ کے انگریزوں نے اسلام قبول کر لیا چناچہ ایک انگریزی خاتون نے جو کسی کالج کی پرفیسر تھی اپنے مسلمان ہوجانے ک مجھ کو اطلاع دی اور اسلامی نام رکھنے کی استدعاء کی اس عورت نام بڑا ڈے ہے میں نے بریدہ تجویز کیا وہ بے حد مسرور ہوئی دونوں ناموں میں نقلی تناسب کی وجہ سے ایک دوسرے انگریز نے ان ہی صاحب کے ذریعہ سے ایک خط مجھ کو لکھوایا کہ میں تھانہ بھون آنا چاہتا ہوں مع اپنی بیوی کے ہندستان دیکھنے کو بیحد جی چاہتا ہے آپکے یہاں پردہ ہے ہمارے یہاں پردہ نہیں تو کیا ایسی حالت میں آپ لوگ ہم کو حقیر نہ سمجھیں گے ـ اب مجھ کو سوچ ہوئی اگر لکھتا ہوں کہ پردہ کی ضرورت نہیں تو نصوص سے ثابت ہے نفی کیسے ہو سکتی ہے اور اگر پردہ کرنے لکھتا ہوں تو ان کو بوجہ عادت نہ ہونیکے وحشت ہوگی بس اسی حفظ حدود کی اصل پر یہ سمجھ میں آیا کہ اور اعضاء تو مستور ہوں ہی گے صرف چہرہ کھلا ہوگا تو چہرہ چھپانے سے اصل مقصود ہے دفع فتنہ اور فاتح قوم کی ایک ہیبت ہوتی ہے مفتوح قوم پر اس لئے گنجائش دیں گے بخلاف ہمارے کہ ہندستان میں ہم آپس میں سب برابر ہیں ایک دوسرے پر کوئی ہیبت کا اثر نہیں اس لئے یہ گنجائش نہ دیں گے اور میں نے یہ جواب اخز کیا حجۃاللہ البالغہ کے ایک تعلیل سے جو انہوں نے امام شافعی کے ایک فرع متعلق ذکر کی ہے سیدہ کا اپنے غلام سے عدم حجاب ہے حجتہ اللہ میں اس کی علت یہی ہیبت بیان فرمائی ہے مگر یہ جب کہ جب طبیعت میں سلامتی ہو جیسے آئمہ کے زمانہ میں تھی اور