ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
اس کی فکر چاہئے اور میں تو صاف کہتا ہوں تاکہ لوگوں کو دھوکہ نہ ہو کہ یہاں پر تو فقیری وقیری کچھ نہیں یہاں تو طالب علمی ہے اور ہم کو اسی میں فخر ہے کہ طالب علموں میں ہمارا شمار کیا جائے اور واقع میں بھی ہم فقیر کدہر سے ہیں ـ جب کھانے پینے میں خوب دل کھلا ہوا ہے فقیری کی تو شان ہوتی ہے کہ ایک بزرگ شب کو سامنے حلوہ رکھ کر نفس سے کہتے تھے ـ دو رکعت نماز نفل پڑھ لے پھر یہ حلوہ کھلاؤ گا پھر دو رکعت کے بعد ایسا ہی وعدہ کرتے تھے ـ تمام شب اسی طرح ختم ہو جاتی ہے تھی اور حلوہ رکھا ہی رہتا تھا ـ ہمارا نفس تو تیرہویں صدی کا ہے ایک دفعہ بھی اگر وعدہ خلافی ہو جائے پھر قبضہ میں نہیں آ سکتا ـ ہماری حالت پر نظر فرما کر حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ نفس کو خوب کھلاؤ پلاو اور اس سے خوب کام لو ـ غرض یہاں کی حالت تو بالکل واضح ہے جس کا دل چاہے تعلق رکھے ـ جس کا چاہے نہ رکھے محض لوگوں کے معتقد بنانے کہ لئے ہم سے تو بنا نہیں جاتا ـ جیسا آج کل بکثرت یہی حالت ہو رہی ہے کہ تقوی اور زہد سب لوگوں کے دکھلانے کے واسطے اختیار کیا جاتا ہے ـ اور زیادہ اہتمام اسی کا کیا جاتا ہے کہ لوگ معتقد ہوں مگر اس کا اہتمام علاوہ مذموم ہونے کے خود موجب پریشانی بھی تو ہے کیونکہ عوام کے اعتقاد کی اور بنائیں ہیں اور خواص کے اعتقاد کی اور نیز امراء کے اعتقاد اور غرباء کے اعتقاد کی اور اس حالت میں بتلائیے سب کو معتقد بنانے کا کہاں تک اہتمام کرو گے اور اگر کیا بھی تو ساری عمر اسی ضیق میں گزرے گی تو میں کہتا ہوں کہ کس جھگڑے میں پڑے اعتقاد کی بناؤں کے اختلاف پر ایک واقعہ یاد آیا ـ ایک شخص دہلی میں امراء میں سے تھے ان کے اعتقاد کی بنیاد سنئے کیسی ضعیف تھی وہ یہ کہ ایک شخص نے مجھ کو دو یا تین روپیہ دینے چاہے میں نے اپنے قواعد کی بناء پر لینے سے انکار کر دیا ـ بس اس سے وہ معتقد ہو گئے پھر مدت کے بعد ایک دنیاوی معاملہ میں انہوں نے مجھ سے سفارش کرانی چاہی ـ میں نے کسی عذر سے انکار کر دیا ـ اس سے غیر معتقد ہو گئے اور ایسے امراء سے اکثر بیچارے غرباء پھر غنیمت ہیں ـ ان کے اعتقاد کی بنیاد اکثر محض تعلق مع اللہ ہی ہوتی ہے اور ایسے غرباء بلکہ دیہاتی بے لکھے پڑھے متقی بھی ہوتے ہیں اور خوش فہم بھی ـ چناچہ وہ لوگ ایسی سمجھ کی بات کرتے ہیں کہ ان امراء کے بھی خواب میں بھی نہ آئی ہو حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک گاؤں کا شخص آیا ـ حضرت اس وقت خادم سے پاؤں دبوا رہے تھے ـ اس نے دیکھ کر کہا کہ مولوی جی بڑا جی خوش ہوتا ہوگا کہ ہم بھی ایسے ہیں ـ حضرت نے فرمایا کہ جی تو خوش ہوتا ہے مگر بڑا ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ آرام پہنچنے کی وجہ سے تو وہ گاؤں والا کیا کہتا ہے کہ مولوی جی تم کو پاؤں دبوانا جائز ہے ـ اس فہم کا کیا ٹھکانہ ہے کہاں نظر پہنچی ہے ـ آج کل تو مشائخ کی بھی دقائق پر نظر نہیں ـ