ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
بھلا ایسا شخص کیا کسی کی دل سے اہانت کر سکتا ہے یا اس کو ذلیل سمجھ سکتا ہے ـ اب رہا یہ شبہ کہ عتاب کی حالت میں معتوب کو ذلیل نہ سمجھے یہ دونوں چیزیں کیسے جمع ہو سکتی ہیں تو بعض اکابر نے اس کی ایک عجیب مثال فرمائی ہے کہ کسی شہزادے کے کسی جرم پر بادشاہ بھنگی کو حکم دے کہ اس کے بید لگاؤ تو عین بید لگانے کے وقت کیا بھنگی اپنے کو شہزادے سے افضل سمجھے گا ہرگز نہیں یہ ہی سمجھیگا کہ شہزادہ شہزادہ ہی ہے میں میچارہ بھنگی میرا کیا ہستی مگر چونکہ بادشاہ کا حکم ہے اس فرض کو پورا کر رہا ہے اور یہ خیال بھی لازم حال ہے کہ اگر حکم کے خلاف ہاتھ ہلکا بھی پڑا تو کہیں اسکی جگہ میں رکھا جاؤں ان دونوں کو جمع کرنیکی مثال اس سے زیادہ واضح دوسری نہیں ہو سکتی اسی طرح واللہ کھبی وسوسہ بھی میرے قلب میں اس کی اہانت کا نہیں ہوتا اسی کو افضل سمجھتا ہوں مگر چونکہ حکم ہے اس لئے کہنے کی بات کہتا ہوں اصلاح کا کام سپرد ہو گیا ہے اس لئے ضروری بات نہ کہنے کو خیانت سمجھتا ہوں حضرت مولانا دیوبندی رحمتہ اللہ علیہ کے اخلاق اظہر من الشمس ہیں مگر اخیر میں سنا ہے کہ ، حضرت بعض لوگوں کے متعلق یہ رائے ظاہر فرمادیتے تھے کہ ایسے متکبرین کا علاج تھانہ بھون ، ہو سکتا ہے ہمارے مجمع میں حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوری بے انتہا خلیق تھے ان کا اخلاق کی یہ حالت تھی کہ جو کسی نے دوا بتائی کھا لی بعض دفعہ اس سے تکلیف بھی ہو جاتی لیکن اگر وہ ، شخص پوچھتا ہے کہ حضرت کو دوا نے نفع دیا فرماتے بڑا فائدہ ہوا اور میری حالت یہ ہے کہ اکثر طبیب بھی آتے رہتے ہیں اگر وہ کسی موقع پر مجھ سے کسی دوا کے استعمال کو کہتے ہیں تو میرا معمول ہے کہ میں صاف کہدیتا ہوں کہ میرے معالج فلاں حکیم صاحب ہیں آپ ان کو مشورہ دیجئے میں ان کے کہنے ، سے کھالوں گا آپ کے کہنے سے نہیں کھاؤں گا غرض مجھ سے ان کے اخلاق بدر جہاز بڑھے ہوئے تھے ، لیکن باوجود اس کے اخیر میں جب حضرت مرض الموت میں مبتلا ہوئے اور اسمیں بھی لوگوں نے چین نہیں دیا تب فرمایا کہ واقعی اشرف علی کے ضوابط اور قواعد کی سخت ضرورت ہے یہ مقولہ حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوری کا ہے خود پیر و مرشد حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے اخلاق کی یہ حالت تھی کہ ایک خانصاحب آپ کی خدمت میں اکثر دوپہر کے وقت آیا کرتے وہی وقت ، حضرت کے آرام کا ہوتا تھا مگر ان کی وجہ سے دوپہر میں بیٹھے رہتے اور کبھی منع نہیں فرمایا ایک روز حافظ محمد ضامن صاحب نے دیکھ لیا فرمایا کہ خانصاحب رات بھر تو جوروکی کی بغل میں پڑے سوتے رہتے ہو اور اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والے رات کو جاگتے ہیں یہ دوپہر کو قیلولہ کر لیتے ہیں اسمیں بھی آکر تم مخل ہوتے ہو خبردار جو کبھی دوپہر میں آئے جب خانصاحب کا آنا بند ہوا مگر حضرت نے اپنی زبان سے کبھی منع نہیں فرمایا