ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
خرچی کا مادہ بہت زیادہ ہے اسکا اصلی سبب بد انتظامی ہے انتظام ضروری چیز ہے اور تجربہ ہے کہ بدون تھوڑے سے بخل کے انتظام مشکل ہے اور فضول خرچی بند نہیں ہو سکتی اس لئے کسی قدر بخل کی بھی ضرورت ہے اور یہ درجہ بخل کا چونکہ ضرورت کا ہے اس لئے مذموم نہیں غرض وہ بخل لغوی ہے شرعی نہیں اور انتظام کا ایک گڑ ہے اسکو اپنے اصول میں داخل کرے تو بہت نافع ہے وہ اگر یہ ہے کہ سوچ کر خرچ کرے اور سوچنے کا بھی طریقہ ہے وہ یہ ہے کہ تین مرتبہ سوچے اور درمیان میں آدھ آدھ گھنٹہ کا فصل ہو چند روز تک تو گرانی ہوگی مگر پھر عادت ہو جائے گی مگر غلو اس میں بھی ممنوع ہے اگر ہر شے اپنے درجہ پر رہے تب ممنوع نہیں اور اس بخل کے مشورہ کی ایک مثال ہے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے عجیب مثال ہے کہ اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ کاغز کو موڑ کر لپیٹ دیتے ہیں اس میں خم پڑ جاتا ہے اور جب سیدھا کرنا چاہتے ہیں تو اسکا عکس کرتے ہیں یعنی اس کو الٹا موڑتے ہیں تاکہ اس کا بل اورخم نکل کر سیدھا ہو جائے اگر بدون دوسری طرف موڑے سیدھا کرنا چاہیں سیدھا نہیں ہوتا اسی طرح اگر کسی میں اسراف کا مرض ہو تو وہاں صورت بخل کا حکم کرنا چاہیئے اور بخل کا مرض ہو تو صورت اسراف کا مگر یہ تجویز تجربہ کار ہی کر سکتا ہے وہی مرض کو سمجھتا ہے ایک بزرگ کے پاس ایک شخص مرید ہونے آیا آپ نے دریافت فرمایا کہ کچھ مال بھی تیرے پاس ہے عرض کیا ہے دریافت فرمایا کہ کسقدر عرض کیا کہ سو درہم فرمایا کہ انکو خرچ کر کے آو جب مرید کریں گے ـ عرض کیا بہت اچھا پھر دریافت فرمایا کہ کسطرح خرچ کرو گے عرض کیا کہ اللہ کے واسطے کسی کو دے دونگا فرمایا نہیں دریا میں پھینک کر آو عرض کیا بہت اچھا دریافت فرمایا کہ کسطرح پھینکو گے عرض کیا کہ دریا پر لیجا کر ایکدم دریا کے اندر پھینک دونگا فرمایا اسطرح نہیں بلکہ ایک درہم ہر روز جا کر پھینکو مطلب یہ تھا کہ نفس پر روزانہ آرہ چلے وہ بزرگ شیخ تھے کہتے تھے کہ اس میں حب مال کا مرض ہے اور محبت ایک ہی چیز کی قلب میں رہ سکتی ہے اس لئے شیخ قلب کے خالی کرنے کی فکر کرتا ہے اسکے موقع محل کو وہی سمجھتا ہے اس لئے اسکی تجویز میں چون و چرا جائز نہیں کیونکہ وہ اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ وہ وہی کہتا ہے جو اسکے دل میں ڈالا جاتا ہے بعضے طالب علم دریا میں پھینکنے پر شبہ کرتے ہیں کہ یہ تو اضاعت ہوئی مال کی جواب یہ ہے کہ اضاعت وہ ہے جس میں کوئی مصلحت نہ ہو یہاں نفس کے ایک خاص درجہ کے علاج کے مصلحت تھی جو شیخ کے اجتہاد میں دوسری صورت سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی اور معالجہ کا زیادہ مدار اجتہاد پے ہے لہزا شبہ کی کوئی وجہ نہیں ـ