جمعہ اور عیدین کے مسائل و احکام |
|
یعنی اب چونکہ مسلمانوں میں بھی پینٹ کا رَواج کثرت سے ہوگیا ہے اور اتنی کَثرت سے یہ پہنا جانے لگا ہے کہ تشبّہ اور کافروں کا شعار ہونے کا معنی باقی نہیں رہا ۔لیکن یہ بات بھی اچھی طرح واضح رہنی چاہیئے کہ پینٹ میں تشبّہ بالکفار کے علاوہ بھی دوسری ایسی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور اگراُن سے نہ بچا جائے تب بھی اس کا پہننا درست نہیں ہوگا ۔پہلی خرابی : پائنچوں کا ٹخنوں سے نیچے ہونا : یہ ایسی خرابی ہے جو پینٹ پہننے والوں کے اندر بکثرت پائی جاتی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو پینٹ پہن کر بھی اِس گناہ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو ، حالانکہ یہ ایسا گناہ ہے جس کی احادیث طیبہ میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں جس کو ”اِسبالِ اِزار کی ممانعت اور اُس کی وعیدیں “کے عُنوان کے تحت ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔دوسری خرابی : پینٹ کا چست ہونا :عموماً پینٹوں میں انسان کے ستر کے اعضاء نمایاں ہوتے ہیں اور بالخصوص جبکہ اوپر شرٹ پہننے کی وجہ سے قمیص کا پچھلا دامن بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اور بھی زیادہ پے پردگی اور عُریانی کا سماں ہوتا ہے ، حالانکہ قرآن کریم میں لِباس کے بنیادی مقاصد میں ستر پوشی کو ذکر کیا گیا ہے ، ستر پوشی کا فائدہ ہی اگر لِباس میں حاصل نہ ہو تو اُسے کہاں شرعی لِباس کہہ سکتے ہیں ۔ شیخ الاِسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں : ”ان دو خرابیوں کی وجہ سے پینٹ پہننا جائز نہیں، لیکن اگر کوئی شخص اِس بات کا اہتمام کرے کہ وہ پتلون چست نہ ہو ، ڈھیلی ڈھالی ہو اور اِس بات کا اہتمام کرے کہ پتلون ٹخنوں سے بھی نیچے نہ ہو تو ایسی پتلون پہننا فی نفسہٖ مباح ہے ، لیکن پھر بھی اس کا پہننا اچھا نہیں اور کراہت سے خالی نہیں “۔ (اصلاحی خطبات :5/294)