جمعہ اور عیدین کے مسائل و احکام |
|
نہیں کیا جاسکتا ۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ جب گھر کا سرپرست ایک ہی جانور خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، گھر بھر کے افراد کی طرف سے قربان کر رہا ہوتو کیا وہ سب کی طرف سے کفایت کرجاتا ہے یا نہیں : امام ابو حنیفہ : چھوٹا جانور صرف ایک فرد کی طرف سے اور بڑا جانور سات افراد کی طرف سے قربان کیا جاسکتا ہے ، اس سے زیادہ افراد اگر چہ وہ گھر کے افراد ہی کیوں نہ ہوں ، شریک نہیں کیے جاسکتے ۔ ہاں ! گھر بھر کے افراد کو ثواب میں شریک کیا جاسکتا ہے ۔ ائمہ ثلاثہ : اگر گھر کا بڑا سرپرست اپنے گھر کے تمام افراد کی جانب سے قربانی کرے تو ایک ہی جانور خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، گھر کے تمام افراد کی طرف سے قربانی کی ادائیگی کیلئے کافی ہوجاتا ہے ۔(فتح الباری : 10/6)(الفقہ الاسلامی : 4/2725)(مرعاۃ المفاتیح:5/77)کب تک شریک کر سکتے ہیں ؟ بہترتو یہی ہے کہ قربانی کا جانور خریدنے سے پہلے ہی یہ طے کرلیا جائے کہ کون کون اِس میں قربانی کے حصہ دار ہونگے۔(شامیہ:6/317) اور اگر اُس وقت یہ کام نہ کرسکے یا طے تو کرلیا تھا لیکن خریدنے کے بعد کسی شریک کاحصہ تبدیل کیا جائے ، مثلاً : زید کو نکال کر خالد کو لایا جائے تب بھی درست ہے، تاہم بلاضرورت ایسا نہیں کرنا چاہیئے ۔ اور ذبح ہوجانے کے بعد بالکل تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ (آپ کے مسائل:4/202) خلاصہ یہ ہے کہ بڑے جانور میں کب تک کسی کو شریک کیا جاسکتا ہے ،اِس کی تین صورتیں ہیں: جانور خریدنے سے پہلے: بہتر یہی ہے کہ خریدنے سے پہلے ہی طے کرلیا جائے۔ جانور خریدنے کے بعد قربانی سے پہلے: جائز ہے،شرکت ثابت ہوجائے گی۔