جمعہ اور عیدین کے مسائل و احکام |
|
کسی شخص کے دو گھرہیں ایک میں خود رہتا ہے او رایک خالی پڑا ہے یا کرایہ پردے رکھا ہے ، تو دوسرا مکان ضرورت سے زائد ہے ، اب اگر اس کی قیمت اتنی ہو جتنی قیمت پر زکوٰة واجب ہوتی ہے تو اس پر صدقہ فطر واجب ہے، البتہ اگر مالک کا اسی مکان پر گزر اوقات ہے (یعنی آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے) تو یہ مکان بھی ضروری اسباب میں داخل ہے او راس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا۔ ( تاتارخانیہ:2/418)صدقہ فطر کا حکم اور اُس میں ائمہ کرام کا اختلاف : احناف کے علاوہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک صدقہ فطر فرض ہے اِس لئے کہ صدقہ فطر کو فرض کہا گیا ہے ،چنانچہ حدیث میں ہے:نبی کریمﷺنے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا۔فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ۔(بخاری:1503) جبکہ حضرات احناف کے مسلک کے مطابق صدقہ فطر کا اداء کرنا واجب ہے،یعنی نکالنا ضروری ہے، نہ نکالنے کی صرت میں گناہ گار ہوگا ۔اور حدیث میں صدقہ فطر کو جو فرض کہا گیا ہے ، اُس سے مراد فرض عملی ہے ،اور فرض عملی اور واجب ایک ہی چیز ہے۔ (البنایۃ : 3/481)صدقہ فطر کی حکمت : رسول الله ﷺ نے صدقہ فطر روزے داروں کو بے کار اور بے ہودہ باتوں سے پاکیزگی اور مساکین کو کھلانے ( یعنی ان کی مدد وغیرہ) کے لیے مقرر فرمایا، پس جس نے اس کو عید کی نماز سے پہلے ادا کر دیا تو یہ مقبول صدقہٴ فطر ہے او رجس نے عید کی نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقہ ہے ( یعنی عید کی نماز سے پہلے ادا کیے گئے صدقہ کے برابر فضیلت نہیں رکھتا)۔فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ