جمعہ اور عیدین کے مسائل و احکام |
|
کرتے تھے ۔عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ:إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ۔ (ابوداؤد:2790) مردہ کی طرف سے قربانی کی دوصورتیں ہیں : میت نے وصیت کی ہو جس کی تعمیل میں قربانی کی جائے ۔ بغیر وصیت کے میت کو ثواب پہنچانے کی غرض سے قربانی کی جائے ۔ پہلی قسم کاحکم : یہ قربانی واجب ہے ، اس لئے کہ وصیت کا نفاذ ضروری ہوتا ہے ، البتہ یہ میت کے تہائی مال میں سے کی جائے گی ۔ اور اس کا گوشت واجب التصدق ہوگا ، فقراء کو کھلا یا جائے گا ۔ دوسری قسم کا حکم : یہ نفلی قربانی ہے ، میت کو اس کاثواب مل جائے گا ۔ اور گوشت عام قربانی کی طرح خود بھی کھاسکتے ہیں ۔ (رد المحتار : 6/326)(کتاب الفتاوی : 4/137)اگرقربانی نہ کی جاسکی ہو اور ایّام ِ اضحیہ گزر جائیں : قربانی کے ایام گزر جائیں اور کسی بھی وجہ سے قربانی نہ کرسکے تو ایک متوسط بکری کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے ۔ اور اگر جانور خریدا ہواہے تو ایسا شخص جس پر قربانی لازم نہ تھی اور اُس نے قربانی کی نیت سے خریدا تھا تو اُس کے لئے اُسی جانور کو صدقہ کرنا ضروری ہے ۔جبکہ مالدار شخص کو دونوں باتوں کااختیار ہے ، چاہے تو اُسی کوصدقہ کردے اور چاہے تو ایک بکری کی قیمت صدقہ کردے ۔ اصل میں اِس مسئلے کی بنیادی طور پر تین صورتیں بنتی ہیں : اگر نذر کی قربانی کا جانور ہو : تو بعینہٖ اُسی جانور کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔