جمعہ اور عیدین کے مسائل و احکام |
|
طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ۔ (ابوداؤد:1609) اِس حدیث میں صدقہ فطر کے دو مقصد ذکر کیے گئے ہیں: (1)روزوں کے اندر ہونے والی تقصیرات اور کوتاہیوں کی تلافی ۔ (2)غرباء و مساکین کے لئے کھانے کا انتظام ۔صدقہ فطر کی مقدار : احادیث طیبہ میں صدقہ فطر کی ادائیگی کے لئے چار چیزیں(گندم ، جَو ، کشمش اور کھجور ) مذکور ہیں، نسائی شریف میں اُن روایات کو تفصیل سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ان میں سے گندم کے اندر نصفِ صاع یعنی پونے دو سیر اداء کرنے کا حکم ہے اور جَو ،کشمش اور کھجور کے اعتبار سے صدقہ فطر اداء کیا جائے تو ایک صاع مکمل یعنی ساڑھے تین سیر اداء کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔(عُمدۃ الفقہ : 3/168)فائدہ :آج کل لوگوں نے یہ رواج اپنا لیا ہے کہ صرف گیہوں سے صدقہٴ فطر ادا کرتے ہیں کہ اس کی قیمت کم ہوتی ہے، اس میں حرج نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ مال دار لوگ کھجور اور کشمش وغیرہ کی قیمت سے صدقہٴ فطر ادا کیا کریں، تاکہ فقراء کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو۔صدقہ فطر کی مقدار میں ائمہ کا اختلاف : امام ابوحنیفہ : گندم کا نصفِ صاع اور دیگر اجناس کا ایک صاع واجب ہوتا ہے ۔ ائمہ ثلاثہ : گندم ، جَو ، کھجور ،اور کشمش تمام اجناس میں سے ایک ہی صاع فی کس لازم ہوتا ہے ۔(درسِ ترمذی : 2/497)(عُمدۃ الفقہ : 3/168)فائدہ :