جمعہ اور عیدین کے مسائل و احکام |
|
طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ۔ (ابوداؤد:1609) حضرت جریر سے نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد منقول ہے:رمضان کے روزے آسمان اورزمین کے درمیان معلق (لٹکے) رہتے ہیں ،جنہیں(الله کی طرف) صدقہٴ فطر کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا۔صَوْم شَهْرِ رَمَضَانَ مُعَلّقٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَايُرفَعُ إِلَّا بِزَكَاةِ الْفِطْرِ۔(الترغیب و الترھیب:1653) حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا: الله کے رسولﷺنے صدقہٴ فطر کو فرض (یعنی واجب) قرار دیا اور فرمایا:” غریبوں کو اس دن غنی کر دو ( یعنی ان کے ساتھ مالی معاونت کرو)۔عَنْ نَافِعٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ , وَقَالَ: «أَغْنُوهُمْ فِي هَذَا الْيَوْمِ»۔(دار قطنی:2133) فقہاء کرام فرماتے ہیں: صدقہٴفطر کی ادائیگی سے روزے قبول ہوتے ہیں ،مشکل آسان ہوتی ہے، کامیابی ملتی ہے او رموت کی سختی اور قبر کے عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے۔فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ ثَلَاثَةُ أَشْيَاءَ: قَبُولُ الصَّوْمِ وَالْفَلَاحُ وَالنَّجَاةُ مِنْ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔(مجمع الانہر:1/226)صدقہٴ فطر کے واجب ہونے کا نصاب : صدقہ فطر کے لازم ہونے کا نصاب وہی ہے جووجوبِ زکوۃ کا نصاب ہے ،یعنی ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا اُس کی مالیت کے بقدر ضرورت سے زائدمال کا مالک ہونا ،البتہ اس میں مالِ تجارت ہونا ، سال کا گذرنا ،بالغ یا عاقل ہونا شرط نہیں ،پس اسی لئے بعض اوقات صدقہ فطر اُس شخص پر بھی لازم ہوتا ہے جس پر زکوۃ لازم نہیں ہوتی ۔(نوادر الفقہ، رفیع عثمانی :272)