جمعہ اور عیدین کے مسائل و احکام |
|
جمعہ کی اذانِ ثالث کا مطلب : بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے :”فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ “ کے الفاظ ذکر کیے گئے ہیں۔(بخاری:912) اِس حدیث سے یہ سمجھ آتا ہے کہ حضرت عثمان کے دَور میں تیسری اذان کا اضافہ کیا گیا تھا، حالآنکہ حقیقت میں وہ تیسری اذان نہیں ،بلکہ دوسری ہی تھی ، لیکن اس کو تیسری اذان اِس لئے کہا گیا کیونکہ اِقامت بھی در اصل ایک اذان ہی ہے، چنانچہ نبی کریمﷺنے بھی اِقامت کو ” بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ“ میں اذان ہی سے تعبیر کیا ہے ، لہٰذا اذانِ ثانی اور اِقامت کے اعتبار سے یہ اذان تیسری اذان کہلاتی ہے ۔(الفقہ علی المذاھب الاربعۃ : 1/343)(مرقاۃ : 3/1041)(تفسیر قرطبی:18/101)فائدہ : حدیثِ مذکور میں حضرت عثمان کے دَور میں جو اذان شروع ہونے کا تذکرہ ہے اُس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اذان” زَوْرَاء“ کے مقام پر دی جاتی تھی ،”زَوراء“ بعید ہونے کے معنی میں آتا ہے، چونکہ یہ مقام شہر سے دور ہوتا تھا اِس لئے اِس کو ”زَوراء“ کہا جاتا تھا ۔ حدیث میں ”زَوراء“سے کیا مراد ہے ، اِس کے مطلب میں کئی اقوال ذکر کیے گئے ہیں : (1) — یہ مدینہ منوّرہ کے بازار میں ایک جگہ تھی جس کو ”زَوراء“کہا جاتا تھا ، وہاں اذان دی جاتی تھی ۔ (2) — مدینہ منوّرہ کے بازار میں کوئی گھر تھا جس کی چھت پر مؤذّن کھڑے ہوکر اذان دیتے تھے۔ (3) — مسجد کے دروازے کے پاس کوئی بڑی دیوار یا بڑا پتھر تھا جس پر چڑھ کرمؤذّن اذان دیا کرتے تھے۔(مرقاۃ : 3/1041)