جمعہ اور عیدین کے مسائل و احکام |
|
واضح رہے کہ صدقہ فطر کے نصاب میں زکوۃ کی طرح مال کا ”نامی “ ہونا یا ”سال کا گزرنا “شرط نہیں ،یعنی زکوٰة کے نصاب میں تو سونا، چاندی ، نقدی یا مال تجارت کا ہونا ہی ضروری ہے ، جب کہ صدقہ فطر میں ان چار مالوں کے علاوہ بھی ہر قسم کا مال نصاب میں شامل ہوتا ہے ، البتہ ایک چیز ان دونوں نصابوں میں مشترک ہے کہ روز مرہ کی ضرورتوں سے زائد ہو اور قرضے سے بچا ہوا ہو۔(مجمع الانہر:1/226 ،227)(طحطاوی علی المراقی، باب صدقۃ الفطر )(ہدایہ ، باب صدقۃ الفطر )(الدر المختار :2/360)صدقہ فطر کے نصاب میں ائمہ کا اختلاف : امام ابوحنیفہ : صدقۃ الفطر کے وجوب کا نصاب وہی ہے جو زکوۃ کا ہے ،یعنی ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا اُس کی مالیت کے بقدر مال کا مالک ہونا ۔ البتہ اس میں نصاب کا”نامی “ہونااور”حولانِ حول “ یعنی سال کا گذرنا شرط نہیں ۔ ائمہ ثلاثہ : صدقۃ الفطر کے وجوب کے لئے کوئی نصاب مقرر نہیں ، ” قُوتُ یومٍ و لَیلَۃٍ “ یعنی جس کے پاس ایک دن اور رات کے کھانے کا انتظام ہے ، اُس پر لازم ہے ۔ (درسِ ترمذی : 2/497)صدقہ فطر واجب ہونے کی شرائط : صدقہٴ فطر واجب ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے: حرّیت : غلام پر صدقہ فطر لازم نہیں ، ہاں! اُس کی طرف سے مالکِ غنی اداء کرنے کا پابند ہے ۔ اسلام : کافر پر صدقہ فطر لازم نہیں ، اس لئے کہ وہ عبادت کی اہلیت نہیں رکھتا ۔ مالکِ نصاب : یعنی ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا اُس کی مالیت کے ضرورت سے زائد مال کا مالک ہونا ۔