جمعہ اور عیدین کے مسائل و احکام |
|
اللهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيَّ: مَا كَانَ يَقْرَأُ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ؟ فَقَالَ: «كَانَ يَقْرَأُ فِيهِمَا بِ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ، وَاقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۔(مسلم:891)عیدین سے پہلے یا بعد میں نوافل پڑھنا : حضرت عبد اللہ بن عباسسے مروی ہے کہ نبی کریمﷺعید الفطر کے دن (عید گاہ کی جانب)نکلے اور صرف دو رکعتیں پڑھی ،نہ اُس سے پہلے پڑھی اور نہ اُس کے بعد۔عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الفِطْرِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا۔(ترمذی:537) امام ابو حنیفہ : نماز سے قبل مطلقاً مکروہ اور نماز کے بعد عید گاہ میں مکروہ ہے ۔ امام مالک واحمد : مطلقاً مکروہ ہے ۔ نماز سے قبل بھی اور بعد میں بھی ۔ امام شافعی : مطلقاً جائز ہے ۔ نماز سے قبل بھی اور بعد میں بھی ۔(مرقاۃ : 3/1063)فائدہ :اِمام مالککا ایک قول یہ ہے کہ عید گاہ کو چھوڑ کر اگر مسجد میں عیدین کی نماز پڑھی جارہی ہو تو نماز سے پہلے اور بعد میں نوافل پڑھنا جائز ہے۔اور اِمام شافعی کے نزدیک جواز کا قول اِمام کیلئے نہیں ، صرف مقتدیوں کیلئےہے اور وہ بھی صرف اُن مقتدیوں کیلئے جو گونگے ہوں اور اِمام کا خطبہ نہ سن سکتے ہوں یا دور ہونے کی وجہ سے اِمام کے خطبہ کی آواز اُن تک نہ پہنچ رہی ہو ،اور اِمام کیلئے نوافل پڑھنے کو وہ بھی مکروہ قرار دیتے ہیں ۔(الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:1/320)