احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
کے بلفظ خاتم النّبیین ابوت روحانیہ بمعنی اجرائے نبوت کا سلسلہ بند کر دیاگیا اور بتایا گیا کہ آئندہ کے لئے نوع انسانی کے روحانی باپ بمعنی رسول اﷲ صرف آپ ہی رہیں گے۔ کیونکہ ایک کامل روحانی باپ کی موجودگی میں ایک ناقص روحانی باپ کو لے آنا بڑی حماقت ہے۔ ان حالات کے پیش نظر مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ آنحضرتa کے بعد غیر شرعی اور ظلی وبروزی انبیاء اور امتی پیغمبران آسکتے ہیں۔ باطل اور غلط ہے کیونکہ یہی عقیدہ آیت زیر بحث کے کسی لفظ سے مستنبط نہیں ہوسکتا۔ ورنہ اس کو اپنے شرعی نسبی باپ غلام مرتضیٰ کے بالمقابل اپنا ایک غیرشرعی نبی باپ بھی بنانا پڑے گا۔ کیونکہ جب ابوت روحانیہ کی چند اقسام جو اس نے تجویز کر رکھی ہیں بنائی جاسکتی ہیں تو پھر ابوت نسبیہ کی بھی یہی اقسام وضع کی جاسکتی ہیں اور اس کو حرامزادہ بنایا جاسکتا ہے۔ مرزاقادیانی نے حاشیہ پر اپنا ایک الہام بطور ذیل لکھا ہے: ’’خسف القمر والشمس فی رمضان فبای آلآء ربکما تکذبان‘‘ رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگ چکا ہے۔ پس تم خدا کی نعمتوں کی کیوں تکذیب کرتے ہو۔ (ریویو برمباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ص۴، خزائن ج۱۹ ص۲۰۹ حاشیہ) اور پھر کہا ہے کہ الہام ہذا کے اندر ’’اٰلآء‘‘ بمعنی نعمت سے مراد خود میں ہی ہوں۔ الجواب اوّلاً یہ ہے کہ الہام ہذا کا پہلا فقرہ مرزاقادیانی کا خود ساختہ ہے اور دوسرا فقرہ ایک آیت قرآن ہے۔ لیکن مرزائی ملہم نے ان دونوں فقروں کو ملا کر اپنی ناسمجھی کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ جب چاند اور سورج کا گرہن زوال نعمت ہے اور ان دونوں کا روشن رہنا ایک بہت بڑی نعمت ہے تو پھر آیت قرآن سے ان کو نعمت قرار دینا ایک بین حماقت ہے۔ دراصل احادیث میں سورج گرہن اور چاند گرہن کو نشانات عبرت اور آیات قدرت کہاگیا ہے۔ بنابرآں اگر الہام مذکور بطور ذیل ہوتا تو قدرے صحت میں رہتا۔ لیکن اس کی موجودہ صورت بالکل غیر مربوط اور بے جوڑ ہے اور قائل کی حماقت پر دال ہے کہ وہ زوال نعمت کو عطائے نعمت کہتا ہے۔ ’’خسف القمر والشمس فی رمضان، فبای اٰلآء ربکما تکذبان‘‘ {رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگ چکا ہے۔ پس تم دونوں خدتعالیٰ کے کس نشان کی تکذیب کرو گے۔} الجوب ثانیاً یہ ہے کہ بقول مرزا خود مرزا کو نعمت قرار دینا بھی غلط ہے۔ کیونکہ اس نے عمر بھر اسلام کو