احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
۔ اتنی مدت میں ایسی شدید مشغولی کے ساتھ ڈھائی تین جز عربی عبارت لکھ دینا کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ اگر شب وروز میں ایک صفحہ بھی لکھا جاتا تو چارجز سے زیادہ ہوتا اور مرزاقادیانی کی تفسیر تو معمولی طریقے سے اگر لکھی جائے تو تین جز سے زیادہ کسی طرح نہیں ہوتی۔ پھر شب وروز کی محنت میں نمازیں قضا کر کے ایک صفحہ تفسیر کا لکھ دینا کوئی بڑی قابلیت کی دلیل ہے کہ دوسرے نہیں کر سکتے؟ ذرا کچھ تو انصاف کرنا چاہئے اور بہت اچھا ہم نے مانا کہ اس وقت چونکہ اکثر علماء کو عربی تحریر کا مذاق نہیں ہے۔ مرزاقادیانی عربی میں ایسی عبارت اور مضمون لکھ سکتے تھے کہ دوسرے نہیں لکھ۱؎ سکتے۔ اس سے ان کے رسالے کا معجزہ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوگا کہ مرزاقادیانی میں اتنی قابلیت تھی کہ شب وروز کی محنت میں ایک صفحہ عربی عبارت لکھ سکتے تھے اور وہ چند علماء جنہیں ان کے اعلان کی خبر بھی پہنچی مگر وہ اس لئے نہ لکھ سکے کہ عربی لکھنے کی مشق نہیں رکھتے تھے۔ یا بوجہ مذکورہ بالا متوجہ نہ ہوئے۔ اس میں مرزاقادیانی کا اعجاز کیا ہوا؟ الحاصل اس رسالہ کو معجزہ کہنا اور اس کا نام اعجاز المسیح رکھنا محض غلط ہے اور اس کی تصدیق خود مرزاقادیانی کا دل بھی کرتا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے ستر دن کے اندر لکھنے کی قید لگائی۔ ورنہ اعجاز کے لئے کوئی قید نہیں ہوسکتی۔ رسالہ اعجاز احمدی کی حالت اور قصیدہ اعجازیہ کی بنیاد ۵؍نومبر ۱۸۹۹ء میں مرزاقادیانی نے اس مضمون کا شتہار دیا کہ: ’’اے میرے مولیٰ اگر میں تیری طرف سے ہوں تو ان تین سال میں جو آخر دسمبر ۱۹۰۲ء تک ختم ہو جائیں گے۔ کوئی ایسا نشان دکھلا جو انسانی ہاتھوں سے بالا تر ہو۔ اگر تین برس کے اندر جو جنوری ۱۹۰۰ء سے شروع ہوکر دسمبر ۱۹۰۲ء تک پورے ہو جائیں گے۔ میری تائید اور تصدیق میں کوئی نشان نہ دکھلائے تو میں نے اپنے لئے یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر میری یہ دعا قبول نہ ہو تو میں ایسا ہی مردود اور ملعون اور کافر اور بے دین اور خائن ہوں جیسا کہ مجھے سمجھا گیا۔‘‘ (ملخص مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۷۱تا۱۷۵) ۱؎ فرضی طور پر یہ لکھا گیا ہے ورنہ اس وقت بھی جن کو عربی تحریر کا مذاق ہے وہ مرزاقادیانی سے بدرجہا عمدہ تفسیر لکھ سکتے ہیں۔ البتہ عرب کا سا مشغلہ اور ان کے سے خیالات کسی ذی علم کے نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ دوسرے کو ذلیل کرنے کے لئے جواب لکھنے پر آمادہ ہو جائیں اور اپنی قابلیت کا اظہار کریں اور خصوصاً ایسے شخص کے مقابل میں جسے وہ لائق خطاب نہیں سمجھتے جس کی تحریر کو جاہلانہ عبارت سمجھتے ہیں۔