احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
عذر ہفتم یہ ہے کہ: ’’مخالفین کے لئے طریقہ تصفیہ آسان تھا کہ وہ خود قادیان میں آتے اور میں ان کی آمد ورفت کا خرچ بھی دیتا اور بطور مہمان کے ان کو رکھتا تب دل کھول کر اپنی تسلی کر لیتے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۶، خزائن ج۱۹ ص۱۱۲) الجواب یہ ہے کہ مرزاقادیانی اپنے اسی بیان میں کاذب وبطال ہے۔ کیونکہ لیکھرام اس کے بلانے پر قادیان میں آگیا تھا۔ لیکن اس نے اس کو نہ اپنی کوئی کرامت دکھائی اورنہ اس کی ضیافت کے لئے آمادگی ظاہر کی۔ بنابرآں مرزاقادیانی کے مخالفین علماء وفضلاء قادیان جانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ لیکن اگر فی الواقع یہ شخص تصفیہ اور رفع نزاع میں نیک نیت اور مخلص تھا تو خود مولوی ثناء اﷲ اور مولوی محمد حسین کے پاس چلا جاتا اور ان کی تسلی میں حق تبلیغ ادا کرتا۔ مگر یہ شخص اپنے ارادہ میں مخلص نہیں تھا اور ان کے پاس جانے کو گواراہ نہ کیا۔ بعینہ اسی طرح مشہور مرزائی مبلغ جلال الدین شمس نے مجھے ربوہ آنے کی دعوت دیتے ہوئے ذیل خط لکھا۔ لیکن میں لیکھ رام کی مرزائی دعوت کا حال معلوم کر کے ڈر گیا اور ربوہ جانے کی مرزائی دعوت کو قبول نہ کیا اور معذرت پیش کر دی۔ محولہ خط یہ ہے: محترمی ومکرمی جناب حکیم میر محمد ربانی صاحب السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ مکتوب گرامی ملا۔ جو کاشف حالات ہوا۔ میری دلی خواہش ہے کہ اگر آپ تکلیف فرما کر ایک دو دن کے لئے ربوہ تشریف لے آئیں تو میرے لئے باعث مسرت ہوگا تاکہ آپ یہاں قیام فرما کر اپنے معاملات مخصوصہ کے بارے میں تبادلہ خیالات بھی فرماسکیں اور اس طرح آپ کو یہاں کے ادارہ جات وحالات سے واقف کرایا جاسکے۔ نیز میرے لئے یہ امر نہایت درجہ مبارک ہوگا کہ چونکہ آں مکرم تحقیق حق کے لئے تشریف لائیں گے۔ اس لئے آپ کے اخراجات آمد ورفت اور قیام وطعام ہمارے ذمہ ہوں گے اور اگر آپ دنیاوی علائق کی وجہ سے تشریف نہ لاسکیں تو پھر آں محترم اپنے سوالات لکھ کر بھجوائیں۔ میں ان کا جواب اپنی نگرانی میں لکھوادوں گا۔چونکہ میرے ذمہ سلسلہ کے بہت اہم کام سپرد ہیں۔ اس لئے پورے احترام کے ساتھ آپ کے سوالات کے جوابات اپنی نگرانی میں لکھوا کر بھیج دوں گا۔ جواب سے ممنون فرمائیں۔ والسلام! المخلص جلال الدین شمس، مورخہ ۲۸؍اگست ۱۹۶۳ء