احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
(بیگم چراغ بی بی/۱۳۰۰) ’’کلبۃ الاغیار/۱۳۰۰‘‘ وہ اغیار (برطانیہ) کی کتیا تھی اور اپنے بیٹے کی ہم خیال تھی اور علمائے اسلام کو بھونکتی تھی۔ چوتھی گالی: یہ ہے کہ اس نے حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے متعلق اپنے بہت سے اشعار میں بالکل بازاری اور سوقیانہ الفاظ اور مغلظات استعمال کی ہیں۔ بطور نمونہ چند اشعار بطور ذیل ہیں: اتانی کتاب من کذوب یزور کتاب خبیث کالعقارب یأبر مجھے ایک کذاب کی طرف سے کتاب پہنچی ہے، وہ خبیث کتاب بچھو کی طرح نیشن زن ہے۔ فقلت لک الویلات یا ارض جولر لعنت بملعونٍ وانت تدمر پس میں نے کہا اے گولڑہ کی زمین تجھ پر لعنت ہے تو ایک ملعون کے سبب سے ملعون ہوگئی اور تو ہلاکت میں پڑے گی۔ تکلم ہذا لنکس کالزمع شاتماً وکل امرٍأ عند التخاصم یسبر اس فرومایہ نے کمینوں کی طرح گالی سے بات کی ہے اور ہر ایک آدمی خصومت کے وقت آزمایا جاتا ہے۔ نطقت بکذب ایہا الغول شقوۃً خف اﷲ یا صید الردٰی کیف تجسر اے دیو تو نے بدبختی کی وجہ سے جھوٹ بولا، اے موت کے شکار خدا سے ڈر۔ کیوں دلیری کرتا ہے۔ (اعجاز احمدی ص۷۵،۷۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸۸،۱۸۹) الجواب اوّلاً: یہ ہے کہ چونکہ ان اشعار میں مرزاقادیانی نے ایک سید آل رسول اور شیخ وقت کو کاذب وملعون کمینہ غول اور شقی وغیرہ جیسے بدترین الفاظ سے مخاطب کیا ہے اور بروئے حدیث شریف ایک سچا مؤمن فحاشی اور لعان نہیں ہوتا۔ اس لئے اس شخص نے اپنی بے ایمانی اور اپنے فسق وفجور سے خود پردہ اٹھادیا ہے اور ثابت کر کے دکھادیا ہے کہ غلام احمد قادیانی/۱۳۰۰، ایک اوباش شخص/۱۳۰۰ ہے۔ کیونکہ عددی طور پر دونوں یکساں اور برابر ہیں۔ جب کہ دونوں کے اعداد حروف پورے (۱۳۰۰) ہیں اور اسے اوباش بتاتے ہیں۔ ثانیاً: یہ ہے کہ مرزاقادیانی تادم آخر شاہ صاحب کی کتاب ’’سیف چشتیائی‘‘ کا جواب نہیں دے سکا اور گالیاں دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ ثالثاً: یہ ہے کہ یہ شاہ صاحب کی زندہ کرامت ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنا دوسرا شعر غلط لکھ دیا ہے۔ کیونکہ لفظ ’’ارض‘‘ عربی زبان میں مؤنث سماعی ہے اور شعر ہذا میں اس کے لئے مذکر جملہ