احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
لوگ مجھے کہتے ہیں کہ مرجا، مرجا لیکن میں نہیں مروں گا یہی لوگ مریں گے خداتعالیٰ کی طرف سے نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ دونوں استاد، شاگرد میرے آخری خط کے قلیل عرصہ بعد فوت ہوگئے اور میں اب تک بفضل خدا زندہ ہوں اور تردید مرزائیت میں اپنی زیر تحریر کتاب کی تکمیل وترتیب میں مشغول ہوں۔ من نہ مردم حاسد انم مردہ اند زانکہ بہرم حسد خود آوردہ اند میں نہیں مرا میرے حاسد مر گئے ہیں کیونکہ وہ میرے لئے اپنا حسد لائے ہیں نشان دوم یہ ہے کہ میرے والد بزرگوار نے ایک ہندو مالک اراضی سے کچھ رقبہ خرید کیا اور انتقال منظورکرالیا۔ اس میں سے چار کنال رقبہ پر ہمارا ایک قریبی رشتہ دار قابض تھا۔ والد مرحوم نے اس کو قبضہ چھوڑنے کے لئے کہا۔ لیکن وہ رضامندنہ ہوا اور قبضہ پر ڈٹا رہا۔ والد محترم نے اپنے بیٹوں اور عزیزوں کی مدد سے مقبوضہ رقبہ پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ ہمارے قابض رشتہ دار نے میرے والد سمیت آٹھ افراد پر فوجداری مقدمہ دائر کر دیا۔کچھ عرصہ مقدمہ چلتا رہا اور پیشی درپیشی ہوتی رہی۔ میں نے ایک رات خواب میں دیکھا جب کہ میں اس رشتہ دار کے گھر کے پاس سے گذررہا تھا کہ ایک سانپ میرے آگے آگیا۔ میں نے خواب کے اندر اس سانپ کو ایک ڈنڈے سے ہلاک کر دیا۔ بیداری پر میں نے سانپ کی ہلاکت کو مقدمہ کے اخراج میں تعبیر کیا اور زیر مقدمہ افراد کو اطلاع دی کہ پیشی پر مقدمہ خارج ہو جائے گا اور ملزمان بری ہو جائیں گے۔ چنانچہ پیشی آنے پر میری تعبیر صحیح ثابت ہوئی اور میرا ایک نشان قرار پائی۔ کیونکہ مقدمہ ہذا پیشی پر خارج ہوگیا۔ نشان سوم یہ ہے کہ میرے والد مرحوم ومغفور کی وفات سال ۱۳۶۶ھ کو واقع ہوئی۔ میں نے چاہا کہ آپ کے سال وفات کو قرآن کی کسی آیت سے بطریق اعداد حروف کے اخذ کیا جائے۔ میں اسی سوچ بچار میں پوری طرح منہمک ہوگیا اور کافی دیر تک سوچنے کے بعد آیت ذیل میرے دل ودماغ پر محیط ہوگئی۔ ’’وظن داؤد انما فتناo فاستغفر ربہ وخر راکعاً وانابo فغفرنا لہ ذلک (ص:۲۴)‘‘ {داؤد علیہ السلام نے گمان کر لیا کہ ہم نے اس کو فتنہ میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور جھکتے ہوئے گر گیا اور پشیمان ہوا۔ اس پر ہم نے اس کو معافی دے دی۔}