احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
گھبرائے اور کچھ نہ سمجھ سکے کہ قصیدہ میں کیا لکھا ہے، نہ کوئی جواب دے سکے۔ مولوی صاحب مرحوم مرزاقادیانی سے بے اعتقاد ہوکر واپس آئے اور اخبارات کے ذریعہ ساری کیفیت کھول دی اور وہ قصیدہ بھی ایک اسلامی رسالہ انجمن نعمانیہ لاہور میں شائع کر دیا۔ جس کو شائع ہوئے قریباً ۶سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ اب تک مرزاقادیانی یا ان کے کسی حواری کو جواب لکھنے کی طاقت نہ ہوئی اور نہ ہی اس کیفیت کی جو اخبارات میں شائع ہوئی کسی مرزائی نے تردید لکھی۔ (سچی بات کی تردید کیا کرتے؟) ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ وہ قصیدہ ہدیہ ناظرین کر دیں۔ اہل علم ناظرین، مرحوم کی علمی فضیلت کا اندازہ اس قصیدہ سے لگا سکیں گے اور اس قصیدہ کو مرزاقادیانی کے مدعی اعجازی کلام کے قصائد سے مقابلہ کرنے سے ہر دو صاحبان کی قادر الکلامی اور فصاحت وبلاغت میں وزن کر سکیں گے اور بفحوائے ’’مشک آن است کہ خودببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ قصیدہ خود اس کی شہادت دے گا کہ مرزاقادیانی اس کے جواب دینے سے عاجز ہے اور اس کا جواب دینا اس کے امکان سے باہر ہے اور پیشتر اس کے کہ وہ قصیدہ لکھا جائے۔ سراج الاخبار ۹؍مئی ۱۸۹۹ء ص۷ سے ہم وہ مضمون نقل کرتے ہیں جو کہ فیضی مرحوم نے سیالکوٹ والی کیفیت اپنے قلم سے لکھ کر اخبار مذکور میں شائع کرائی تھی۔ وہو ہذا نقل مضمون سراج الاخبار ۹؍مئی ۱۸۹۹ء مشتہرہ فیضی مرحوم ’’ناظرین! مرزاقادیانی کی حالت پر نہایت ہی افسوس آتا ہے کہ وہ باوجودیکہ لیاقت علمی بھی جیسا کہ چاہئے، نہیں رکھتے۔ کس قدر قرآن وحدیث کا بگاڑ کر رہے ہیں۔ سیالکوٹ کے کئی ایک احباب جانتے ہوں گے کہ ۱۳؍فروری ۱۸۹۹ء کو جب یہ خاکسار سیالکوٹ میں مسجد حکیم حسام الدین صاحب میں مرزاقادیانی سے ملا توایک قصیدہ عربی بے نقط منظومہ خود مرزاقادیانی کے ہدیہ کیا۔ جس کا ترجمہ نہیں کیا ہوا تھا۔ اس لئے کہ مرزاقادیانی خود بھی عالم ہیں اور ان کے حواری بھی جو اس وقت حاضر محفل تھے، ماشاء اﷲ فاضل ہیں اور قصیدہ میں ایسا غریب لفظ بھی کوئی نہیں تھا اور پھر اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر آپ کو الہام ہوتا ہے تو مجھے آپ کی تصدیق الہام کے لئے یہی کافی ہے کہ اس قصیدہ کا مطلب حاضرین مجلس کو واضح سنا دیں۔ مزید برآں مسائل متحدثہ مرزاقادیانی کی نسبت استفسار تھا۔ مرزاقادیانی اس کو بہت دیر تک چپکے دیکھتے رہے اور مرزاقادیانی کو اس کی عبارت بھی نہ آئی۔ باوجودیکہ عربی خوش خط لکھا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے ایک فاضل حواری کو دیا جو بعد ملاحظہ فرمانے لگے کہ اس کا ہم کو تو پتہ نہیں ملتا۔ آپ ترجمہ کر کے دیں۔ خاکسار نے واپس لے لیا۔ پھر زبان سے عرض کیا تو مرزاقادیانی کلمہ شہادت اور آمنت باﷲ الخ مجھے سناتے رہے اور